كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے اور ہم تمہیں برے اور بھلے حالات میں بطور آزمائش ڈالتے ہیں، اور تم تمام کو ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔
اس لئے فرمایا ﴿ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾ ” ہر جان موت کا مزہ چھکنے والی ہے“۔ یہ آیت کریمہ تمام خلائق کے نفوس کو شامل ہے۔ بندے کو خواہ کتنی ہی لمبی مہلت اور کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ دے دی جائے آخر موت کا پیالہ اسے پینا ہی پڑے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے بندوں کو وجود بخشا، ان کو اوامر و نواہی عطا کئے ان کو خیر و شر، غنا و فقر، عزت و ذلت اور موت و حیات کے ذریعے سے آزمائش میں مبتلا کیا تاکہ وہ دیکھے کہ فتنے کے مواقع پر کون فتنے میں مبتلا ہوتا ہے اور کون فتنے سے نجات پاتا ہے۔ فرمایا ﴿ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ ” پھر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے“۔ پھر ہم تمہیں تمہارے اعمال کا بدل دیں گے، اگر اچھے اعمال ہیں تو جزا ابھی ہوگی، اگر برے اعمال ہیں تو جزا بھی بری ہوگی۔ ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ﴾ (حم السجدۃ: 41، 46) ” اور آپ کا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا“۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے بطلان پر دلالت کرتی ہے جو حضرت خضر علیہ السلام کی بقاء کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہ ایک ایسا قول ہے جس پر کوئی دلیل نہیں، نیز یہ دلائل شرعیہ کے بھی منافی ہے۔