سورة الأنبياء - آیت 32

وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا ۖ وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا اور وہ لوگ اس میں موجود نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا﴾ یعنی آسمان کو اس زمین کے لئے چھت بنایا جس پر تم رہ رہے ہو ﴿مَّحْفُوظًا﴾ یعنی گرنے سے محفوظ۔ جیسا کہ فرمایا ﴿إِنَّ اللّٰـهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ﴾(فاطر:35؍41)” بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں“ نیز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو شیاطین کے سن گن لینے سے بھی محفوظ کر رکھا ہے۔ ﴿وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ﴾ یعنی وہ اس کی آیات سے غافل اور لہو و لعب میں مبتلا ہے۔ یہ آسمان کی تمام نشانیوں کے لئے عام ہے، مثلاً اس کی بلندی، کشادگی، عظمت اس کے حسین رنگ، حیرت انگیز مہارت سے اس کی مضبوطی وغیرہ، نیز اس میں بہت سی دیگر نشانیوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، مثلاً ستارے، سیارے، روشن سورج اور چاند جو رات اور دن کے وجود کا باعث بنتے ہیں اور ہمیشہ سے اپنے افلاک میں تیر رہے ہیں۔ اسی طرح ستارے اپنے اپنے فلک میں رواں دواں ہیں۔ پس اس سبب سے بندوں کے مصالح پورے ہوتے ہیں، مثلاً گرمی سردی کا پیدا ہونا، موسموں کا تغیر و تبدل، جس سے بندے اپنی عبادات اور دیگر معاملات کا حساب رکھتے ہیں، رات کے وقت راحت اور سکون پاتے ہیں اور دن کے وقت اپنی معاش کے حصول کے لئے زمین میں پھیل جاتے ہیں۔ ان تمام امور کی تدبیر ایک دانا و بیناہستی کر رہی ہے اور وہ نہایت توجہ سے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سے قطعی طور پر نتیجہ نکلتا ہے جس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک وقت مقرر اور حتمی مدت تک کیلئے بنایا ہے تاکہ اس دوران میں اپنے مصالح و منافع حاصل کرلیں اور فائدہ اٹھا لیں۔ اس کے بعد یہ سب کچھ زائد ہو کر مضمحل ہوجائے گا اور وہ ہستی اسے فنا کے گھاٹ اتار دے گی جو اسے وجود سے لائی ہے، وہ ہستی اس کون و مکاں کو ساکن کر دے گی جس سے اس کو متحرک کیا ہے۔ مکلفین اس گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوجائیں گے جہاں انہیں ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ دنیا آخرت کے دائمی گھر کے لئے کھیتی ہے، یہ سفر کی ایک منزل ہے، مستقل قیام کی جگہ نہیں ہے۔