سورة الأنبياء - آیت 18

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بلکہ ہم تو حق کو باطل پر دے مارتے ہیں پس وہ اس کی سرکوبی کردیتا ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے باطل کا وجود ختم ہوجاتا ہے، اور جو کچھ تم اللہ کے بارے میں کہا کرتے ہو وہ تمہاری تباہی لاکر رہے گی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے احقاق حق اور ابطلال باطل کی ذمہ داری لی ہے۔ باطل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ حق، علم اور بیان نازل کرتا ہے، جس سے باطل پر ضرب لگتی ہے پس باطل مضمحل ہوجاتا ہے اور اس کا بطلان ہر ایک پر ظاہر ہوجاتا ہے ﴿  فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾ یعنی مضمحل ہو کر فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور تمام دینی مسائل میں یہی اصول عام ہے، جب بھی کوئی باطل پرست شخص باطل کو حق ثابت کرنے یا حق کو رد کرنے کے لئے کوئی عقلی یا نقلی شبہ وارد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عقلی اور نقلی دلائل میں اتنا زور ہوتا ہے کہ وہ اس قول باطل کو زائل کر کے اس کا قلع قمع کردیتا ہے اور یوں اس کا بطلان ہر شخص پر واضح ہوجاتا ہے۔ اگر تمام مسائل میں ایک ایک مسئلہ کا اسقراء کیا جائے تو آپ اس اصول کو اسی طرح پائیں گے۔ پھر ارشاد فرمایا ﴿وَلَكُمُ﴾ اور تمہارے لئے۔ اے لوگو ! جو اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے موصوف کرتے ہو جو اس کے شایان شان نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کا بیٹا، بیوی، اس کے ہمسر اور شریک قرار دینا۔ ان باطل باتوں میں سے تمہارا حصہ اور تمہارا نصیب ہے کہ اس پاداش میں تمہارے لئے ہلاکت، ندامت اور خسارہ ہے تم نے جو کچھ کہا ہے اس میں تمہارے لئے کوئی فائدہ ہے نہ تمہارے لئے کوئی بھلائی، جس کی خاطر تم عمل کر رہے ہو اور جہاں پہنچنے کے لئے تم کوشاں ہو، البتہ تمہارے مقصود و مطلوب کے برعکس، تمہارے نصیب میں نا کامی اور محرومی ہے۔