لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
ان کے دل بے پرواہ ہوتے ہیں اور چپکے چپکے ظالم لوگ سرگوشی کرتے ہیں کہ یہ تم ہی جیسا ایک انسان (٣) ہی تو ہے، تو کیا تم لوگ سب کچھ دیکھتے ہوئے جادو کو قبول کرلینا چاہتے ہو۔
﴿ وَهُمْ يَلْعَبُونَ لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ﴾ یعنی ان کے دل اپنے دنیاوی اغراض و مقاصد میں مستغرق ہو کر اس ” ذکر“ سے روگرداں اور ان کے جسم شہوات کے حصول، باطل پر عمل پیرا ہونے اور ردی اقوال میں مشغول ہیں۔ جب کہ ان کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ اس صفت سے متصف نہ ہوں بلکہ اس کے برعکس وہ اللہ تعالیٰ کے امر ونہی کو قبول کریں، اسے اس طرح سنیں جس سے اس کی مراد ان کی سمجھ میں آئے، ان کے جوارح اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوں جس کیلئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ روز قیامت، حساب و کتاب اور جزا و سزا کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اس طرح ہی ان کے معاملے کی تکمیل ہوگی، ان کے احوال درست اور ان کے اعمال پاک ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ﴾ ” لوگوں کے لئے ان کا حساب قریب آگیا ہے۔“ کی تفسیر میں اصحاب تفسیر سے دو قول منقول ہیں۔ (1) پہلا قول یہ ہے کہ یہ امت آخری امت اور یہ رسول آخری رسول ہے۔ اس رسول کی امت پر ہی قیامت قائم ہوگی گزشتہ امتوں کی نسبت، قیامت اس امت کے زیادہ قریب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” مجھے اس زمانے میں مبعوث کیا گیا ہے کہ میں اور قیامت کا دن اس طرح ساتھ ساتھ ہیں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی کو اکٹھا کر کے دکھایا۔ [صحیح البخاری،الرقاق،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم (بعث أنا۔۔۔) ح:6503، وصحیح مسلم ،الجمعة،باب تخفیف الصلاۃ والخطبة،ح:867] (2) دوسرا قول یہ ہے کہ ” حساب“ کے قریب ہونے سے مراد موت کا قریب ہونا ہے، نیز یہ کہ جو کوئی مر جاتا ہے، اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے اور وہ اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لئے دارالجزا میں داخل ہوجاتا ہے اور یہ تعجب ہر اس شخص پر ہے جو غافل اور روگرداں ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ صبح یا شام، کب اچانک موت کا پیغام آجائے۔ تمام لوگوں کی یہی حالت ہے سوائے اس کے جس پر عنایت ربانی سایہ کناں ہے۔ پس وہ موت اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات کے لئے تیاری کرتا ہے۔