سورة طه - آیت 133

وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ أَوَلَمْ تَأْتِهِم بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کفار کہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس سے ہمارے لیے کوئی نشانی (٦١) کیوں نہیں لے کر آتا ہے، کیا آپ کی نبوت سے متعلق جو دلائل گزتہ آسمانی کتابوں میں پائے جاتے ہیں وہ ان کو نہیں پہنچی ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے آپ سے کہتے ہیں کہ آپ کے رب کی طرف سے ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ نشانی سے ان کی مراد معجزات ہیں۔ یہ بات ان کے اس قول کی مانند ہے ﴿وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللّٰـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍۔ 90۔ 92) ” انہوں نے کہا کہ ہم تم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کرے۔ یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو اور تو اس باغ کے درمیان نہریں جاری کر دے یا تو آسمان کو۔۔۔ جیسا کہ تو دعویٰ کرتا ہے۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرا دے یا تو اللہ اور فرشتوں کو ہمارے روبرو لے آئے۔“ یہ ان کی طرف سے محض تعنت، عناد اور ظلم ہے۔ کیونکہ رسول اور وہ خود محض بشر اور اللہ کے بندے ہیں۔ ان کا اپنی خواہشات کے مطابق معجزات کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی حکمت کے مطاق آیات و معجزات کا انتخاب کرکے نازل کرتا ہے۔ چونکہ ان کا قول ﴿لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِّن رَّبِّهِ﴾ تقاضا کرتا ہے کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر کوئی نشانی اور آپ کے حق ہونے پر دلیل نازل نہیں ہوئی۔۔۔ حالانکہ یہ جھوٹ اور بہتان ہے کیونکہ آپ بڑے بڑے معجزات اور ناقابل تردید دلائل لے کر آئے کہ ان میں سے کسی ایک کے ذریعے سے مقصود حاصل ہوسکتا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿أَوَلَمْ تَأْتِهِم ﴾ ” کیا ان کے پاس نہیں آئی“۔ اگر وہ اپنی بات میں سچے ہیں اور دلیل کے ذریعے سے وہ حق کے متلاشی ہیں ﴿بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ ﴾ ” وہ دلیل جو پہلے صحیفوں میں ہے؟“ یعنی یہ قرآن عظیم ان تمام باتوں کی تصدیق کرتا ہے جو گزشتہ صحیفوں، یعنی تورات، انجیل اور دیگر کتابوں میں نازل ہوئی ہیں اور انہی امور کے بارے میں خبر دیتا ہے جن کے بارے میں ان گزشتہ کتابوں نے خبر دی ہے ان گزشتہ کتب اور صحیفوں میں اس قرآن عظیم کی تصدیق بھی موجود ہے اور اس کو لانے والے رسول کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذٰ لِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (العنکبوت : 29؍51)” کیا ان کے لئے یہی کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب عظیم نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لئے رحمت اور نصیحت ہے جو ایمان لاتے ہیں“۔ آیات الٰہی اہل ایمان کو فائدہ دیتی ہیں، ان کی تلاوت سے ان کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے لیکن آیات الٰہی سے اعراض کرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے ان پر ایمان رکھتے ہیں نہ ان سے کوئی فائدہ ہی اٹھاتے ہیں۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ  وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ ﴾ (یونس : 10؍96۔ 97) ” بلاشبہ وہ لوگ جن پر تیرے رب کا حکم قرار پا چکا ہے خواہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے، وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں“۔