سورة طه - آیت 124

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

او جو شخص میری یاد سے روگردانی (٥٥) کرے گا وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا اور قیامت کے دن اسے ہم اندھا اٹھائیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي﴾یعنی جس کسی نے میری کتاب کریم سے اعراض کیا جس سے تمام مطالب عالیہ حاصل کیے جاتے ہیں اور اس سے روگردانی کرکے اس کوچھوڑدیا ،یا اس کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر برا سلوک کیا،یعنی اس کا انکار کرکے کفر کاارتکاب کیا﴿فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ یعنی اس کی سز ایہ ہوگی کہ ہم ا س کو معیشت کوتنگ اور نہایت پر مشقت بنادیں گے اور یہ معیشت اس کے لیے محض ایک عذاب ہوگی ۔ ”تنگ معیشت“کی تفسیر بیان کی جاتی ہے کہ ا س سے مراد عذاب قبر ہے،یعنی اس کے لیے اس کی قبر کوتنگ کردیاجائے گا وہ اس میں گھٹ کررہ جائے گا اور ا س کوعذاب دیاجائے گایہ اس بات کی سزاہے کہ اس نے اپنے رب کےذکر سے روگردانی کی تھی۔یہ ان آیات میں سے ایک آیت ہے جوعذاب قبرپردلالت کرتی ہیں۔ دوسری آیت کریمہ یہ ہے۔ ﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّٰـهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾ (الانعام : 6؍93) ” کاش آپ ان ظالموں کو اس وقت دیکھیں، جب یہ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے۔( اور کہہ رہے ہوں گے) نکالو اپنی جان آج تمہیں انتہائی رسوا کن عذاب کی سزا دی جائے گی اس کا سبب یہ ہے کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیتوں کے ساتھ تکبر کیا کرتے تھے“۔ تیسری آیت کریمہ یہ ہے۔ ﴿وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ (المسجدۃ: 32؍21) ” ہم ان کو قیامت کے بڑے عذاب سے کمتر عذاب کا مزا بھی چکھائیں گے، شاید کہ وہ لوٹ آئیں“۔ چوتھی آیت کریمہ یہ ہے ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المومن : 40؍46) ” انہیں صبح و شام آگ کے عذاب کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی اس روز کہا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو“۔ جو چیز سلف میں سے بعض مفسرین کے لئے، اس آیت کریمہ کو عذاب قبر پر محمول کرنے اور صرف اسی پر اقتصار کرنے کی موجب بنی۔۔۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔۔۔ وہ ہے آیت کریمہ کا آخر۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کے آخر میں قیامت کے عذاب کا ذکر کیا ہے۔ اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ ” تنگ معیشت“ عام ہے یعنی اپنے رب کے ذکر سے روگردانی کرنے والوں پر دنیا میں غم و ہموم اور مصائب و آلام کے جو پہاڑ ٹوٹتے ہیں، وہ عذاب معجل ہے۔ برزخ میں بھی ان کو عذاب میں ڈالا جائے گا اور آخرت میں بھی عذاب میں داخل ہوں گے کیونکہ ” تنگ معیشت“ کو بغیر کسی قید کے مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَنَحْشُرُهُ﴾ ” اور اکٹھا کریں گے ہم اس کو“۔ یعنی اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرنے والے اس شخص کو ﴿ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾ قیامت کے روز اندھا اٹھائیں گے۔۔۔ اور صحیح تفسیر یہی ہے۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍97)” اور قیامت کے روزان لوگوں کو اندھے، گونگے اور بہرے ہونے کی حالت میں، اوندھے منہ اکٹھا کریں گے“۔