سورة طه - آیت 114

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس بہت ہی عالی شان والا ہے (٤٨) وہ ہے اللہ جو سارے جہاں کا بادشاہ ہے اور آپ قرآن کو یاد کرنے کی جلدی (٤٩) نہ کیجیے، اس سے قبل کہ آپ پر اس کی وحی پوری ہوجائے اور دعا کیجیے کہ میرے رب مجھے اور زیادہ علم دے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم جزائی ذکر کیا جس سے اس کے بندے دو چار ہوتے ہیں اور حکم دینی و امری بیان فرمایا جو اس کتاب کریم میں نازل کیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور اقتدار کے آپ ثار ہیں تو فرمایا : ﴿فَتَعٰلَی اللّٰہُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ہر نقص اور آفت سے پاک بلند اور جلیل تر ہے ﴿ الْمَلِكُ ﴾ اقتدار حاکمیت جس کا وصف ہے اور تمام مخلوق اس کی مملوک (غلام) ہے۔ اس کی بادشاہی کےقدری و شرعی احکام تمام مخلوق پر نافذ ہیں ﴿الْحَقُّ﴾ یعنی اس کا وجود، اس کا اقتدار اور اس کا کمال سب حق ہے۔ پس صفات کمال کی مالک صرف ایسی ہستی ہوسکتی ہے جو ذی جلال ہو اور اس میں اقتدار بھی شامل ہے۔ بعض اوقات اس کے سوا مخلوق اس کے سوا مخلوق بھی محض اشیاء پر اقتدار اور اختیار رکھتی ہے مگر یہ اقتدار نقص اور باطل ہے جو زائل ہوجانے والا ہے۔۔۔ مگر رب تعالیٰ ہمیشہ کے لئے بادشاہ حقیقی جلال کا مالک اور قائم و دائم رہنے والا ہے۔ ﴿وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ﴾ یعنی جب جبریل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو اخذ کرنے میں جلدی نہ کیجئے اس وقت تک صبر کیجئے جب تک کہ وہ تلاوت سے فارغ نہ ہوجائے۔ جب وہ تلاوت سے فارغ ہوجائے تب اس کو پڑھئے کیونکہ للہ تعالیٰ نے قرآن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینے میں جمع کرنے اور آپ کے اس کی قراءت کرنے کی ضمانت دی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾ (القیٰمه : 75؍ 16۔ 19) ” جلدی سے وحی پڑھنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کیجئے اس کو جمع کرنا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے اور جب ہم اس وحی کو پڑھیں تو آپ اسی طرح پڑھا کریں پھر اس کے معانی کی تبیین و توضیح ہمارے ذمہ ہے“۔ چونکہ وحی کو اخذ کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عجلت دلالت کرتی ہے کہ آپ علم کے ساتھ کامل محبت رکھتے تھے اور اس کے حصول کے بے حد خواہش مند تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ وہ اپنے لئے از دیاد علم کی دعا کریں کیونکہ علم بھلائی ہے اور بھلائی کی کثرت مطلوب ہے اور یہ کثرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور اس کے حصول کا راستہ کوشش شوق علم اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا اس سے مدد مانگنا اور ہر وقت اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج سمجھنا ہے۔ اس آیت کریمہ سے حصول علم کے آداب اخذ کئے جاتے ہیں۔ علم کی سماعت کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ صبر سے کام لے یہاں تک کہ املا کرانے والا اور معلم اپنے کلام سے فارغ ہوجائیں جو لگا تار اور مسلسل ہے۔ اگر ذہن میں کوئی سوال ہے تو وہ اس وقت کیا جائے جب معلم فارغ ہوجائے۔ معلم کی قطع کلامی اور سوال کرنے میں عجلت سے باز رہے کیونکہ یہ حرماں نصیبی کا سبب ہے۔ اسی طرح مسؤل کے لئے مناسب ہے کہ وہ سائل کے سوال کو لکھ لے اور جواب دینے سے قبل سائل کے مقصود کو اچھی طرح سمجھ لے کیونکہ یہ صحیح جواب کا سبب ہے۔