سورة طه - آیت 104

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ لوگ جو کہیں گے (٤٠) اسے ہم خوب جانتے ہیں، جب کہ ان میں سب سے اچھی رائے والا کہے گا کہ تم لوگ تو صرف ایک دن ٹھہرے تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً﴾ یعنی ان میں سے سب سے زیادہ معتدل اور اندازے کے سب سے زیادہ قریب شخص کہے گا : ﴿إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا﴾ تم صرف ایک دن دنیا میں رہے ہو۔ اس سے ان کا مقصد بہت بڑی ندامت اور پشیمانی کا اظہار ہے کہ انہوں نے اوقات قصیرہ کیسے ضائع کردیے اور غفلت اور لہو و لعب میں ڈوب کر فائدہ مند اعمال سے اعراض کرتے ہوئے اور نقصان دہ اعمال میں پڑ کر ان اوقات کو گزار دیا۔ اب جزا کا وقت آگیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہوا اور اب ندامت، ہلاکت اور موت کی دعا کے سوا کچھ باقی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ  قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (المؤمنون:23؍114،112) ” اللہ پوچھے گا تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئے ! فرمایا تم زمین میں بہت تھوڑا ٹھہرے ہو، کاش تم نے اس وقت جانا ہوتا“۔