كَذَٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرًا
(اے میرے نبی) ہم اسی طرح آپ کو گزشتہ قوموں کی خبریں (٣٨) سناتے رہتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے پاس سے قرآن دیا۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے آپ کو گزرے ہوئے لوگوں کی خبروں سے آگاہ فرمایا ۔۔۔ مثلاً یہ عظیم واقعہ اور اس کے اندر مذکور تمام احکام، جن کا اہل کتاب میں سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ پس آپ نے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ کا درس لیا ہے نہ کسی سے اس کا علم حاصل کیا ہے، لہٰذا آپ کا ان کے واقعات کے بارے میں حق الیقین کے ساتھ آگاہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں اور آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ سب صداقت پر مبنی ہے۔ بناء بریں فرما : ﴿ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ﴾ ” اور دیا ہم نے آپ کو اپنی طرف سے“۔ یعنی اپنی طرف سے نفیس عطیہ اور عظیم نوازش کے طور پر ﴿ذِكْرًا﴾ ” ایک ذکر“ اس سے مراد قرآن کریم ہے، جس میں تمام گزرے ہوئے اور آنے والے واقعات کی خبر دی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے کامل اسماء وصفات کا ذکر ہے اور اس میں احکام امرونہی اور احکام جزا کا تذکرہ ہے۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم بہترین احکام پر مشتمل ہے۔ عقل اور فطرت سلیم ان احکام کے حسن و کمال کی گواہی دیتی ہیں اور قرآن کریم آگاہ کرتا ہے کہ ان احکام میں کیا کیا مصالح پنہاں ہیں، اس لئے جب قرآن کریم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کے لئے تذکرہ ہے تب اس کو قبول کرنا، اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، اس کی اطاعت کرنا، اس کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن ہونا اور اس کی تعلیم و تعلم واجب ہے اس سے روگردانی کے ساتھ پیش آنا یا اس کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جو اس سے بھی زیادہ عمومیت کا حامل ہو، جیسے اس کی باتوں کا انکار کرنا۔ تو یہ اس نعمت کی ناشکری ہے اور جو کوئی اس ناشکری کا ارتکاب کرتا ہے وہ سزا کا مستحق ہے۔