سورة طه - آیت 97

قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو موسیٰ نے کہا (٣٥) تم دور ہوجاؤ اب تم (بخار ابھر جانے کے ڈر سے) زندگی بھر لوگوں سے یہی کہتے رہو گے کہ مجھے کوئی نہ چھوئے، اور قیامت میں تیرے عذاب کا ایک اور وعدہ ہے جس کی تمہارے ساتھ خلاف ورزی نہیں ہوگی، اور اپنے معبود کو دیکھو (٣٦) جس کی عبادت پر تم جمے رہے تھے، ہم اسے یقینا جلا دیں گے، پھر اس کی راہ دریا میں بکھیر دیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے کہا : ﴿فَاذْهَبْ﴾ مجھ سے دور ہوجا ﴿فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ﴾ یعنی تجھے زندگی میں ایسی سزا دی جائے گی کہ کوئی شخص تیرے قریب آئے گا نہ تجھے چھوئے گا۔ اگر کوئی شخص تیرے پاس آنا چاہے گا تو خود ہی پکار کر اسے کہہ دے گا ” مجھے مت چھونا، میرے قریب نہ آنا“ یہ تمہارے اس فعل کی سزا ہوگی۔۔۔ کیونکہ سامری نے اس چیز کو چھوا جسے کسی دوسرے نے نہیں چھوا اس نے وہ کچھ جاری کیا جو کسی اور نے جاری نہیں کیا۔ ﴿وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ﴾ ” اور تیرے لیے ایک وعدہ ہے جو ہرگز تجھ سے نہیں ملے گا“ پس اس وقت تجھے تیرے اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ﴿وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَـٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا﴾ ” اور دیکھ تو اپنے اس معبود کی طرف جس کی تو تعظیم و عبادت کرتا ہے“۔ اس سے مراد بچھڑا ہے ﴿لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا﴾ ” ہم اسے جلا کر، اس کا ریزہ ریزہ اڑا دیں گے“۔ اور موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اگر وہ بچھڑا معبود ہوتا تو وہ ایذا دینے والے اور تلف کرنے والے سے بچ سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی، اس لئے موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے اس کو تلف کرنے کا ارادہ کیا تاکہ وہ اس کو دوبارہ نہ بنا سکیں۔۔۔ اس کو جلانے اور اس کو ریزہ ریزہ کر کے سمندر میں بکھیرنے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح بچھڑا جسمانی طور پر ختم کردیا گیا ہے اسی طرح ان کے دلوں سے اس کی محبت بھی زائل ہوجائے، نیز اس کے باقی رکھنے میں نفوس کے لئے فتنے کا امکان تھا کیونکہ نفسوں کے اندر باطل کی طرف بڑا قوی داعیہ ہوتا ہے۔ جب ان کے سامنے اس خود ساختہ خدا کا بطلان واضح ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس ہستی کے متعلق آگاہ فرمایا جو عبادت کی مستحق ہے، جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، فرمایا :