وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي
اور ہارون نے تو انہیں اس کے پہلے خبردار (٣٣) کردیا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم بچھڑے کے ذریعہ فتنہ میں پڑگئے ہو، اور بیشک تمہارا رب رحم ہے پس تم لوگ میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو۔
یعنی بچھڑے کو معبود بنانے میں وہ معذور نہیں تھے۔ اگر وہ بچھڑے کی عبادت کے بارے میں کسی شبہ میں مبتلا ہوگئے تھے تو ہارون علیہ السلام نے ان کو بہت روکا تھا اور ان کو آگاہ کردیا تھا کہ یہ ان کی آزمائش ہے۔ ان کا رب تو رحمٰن ہے، جس کی طرف سے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کا فیضان جاری ہے اور وہ تمام تکالیف کو دور کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ ہارون علیہ السلام کی اتباع کریں اور بچھڑے کو چھوڑ دیں، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔