وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور اگر تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو، اور ان کی مہر مقرر کردی تھی تو انہیں مقرر کا آدھا دے دو (331) الا یہ کہ وہ معاف کردیں، یا وہ معاف کردے جس کے اختیار میں عقد زواج ہے، اور تمہارا معاف کردینا تقوی کے زیادہ قریب ہے، اور آپس میں خیر خواہی کرنا نہ بھولو، بے شک اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے
پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا مہر مقرر کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مہر مقرر کرنے کے بعد ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دو، تو مطلقہ عورتوں کے لئے نصف مہر ہے اور باقی نصف تمہارا ہے۔ مہر کی یہ رقم اگر عورت کی طرف سے معاف نہ کردیا جائے، تو خاوند پر اس کی ادائیگی واجب ہے۔ جب کہ عورت کا اس کو معاف کرنا صحیح ہو۔ ﴿ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ۭ﴾” یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔“ صحیح مسلک کے مطابق اس سے مراد شوہر ہے (نہ کہ ولی) کیونکہ شوہر ہی وہ شخص ہے جو نکاح کی گرہ کو کھول سکتا ہے۔ عورت کے ولی کے لئے تو درست ہی نہیں کہ وہ عورت کے کسی حق واجب کو معاف کر دے کیونکہ وہ مالک ہے نہ وکیل۔ [(١) اس کی وضاحت شیخ رحمہ اللہ نے حاشیہ نمبر 1 میں فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :” ان سطور کو لکھتے وقت میرا یہی موقف تھا لیکن بعد میں میرے لئے یہ واضح ہوا کہ جس شخص کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، وہ قریب ترین ولی ہے اور وہ باپ ہے۔ لفظی اور معنوی اعتبار سے یہی زیادہ صحیح قول ہے جیسا کہ غور و فکر کرنے والے کے لئے ظاہر ہے۔“ اور حاشیہ نمبر 2 میں مؤلف رحمہ اللہ کے قلم سے لکھا ہوا ہے۔ ” ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ باپ ہے (یعنی جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے) اور یہی وہ معنی ہے جس پر آیت کریمہ کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔“ (از محقق) (٢) خاوند کے معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ادا شدہ (یا مقرر) حق مہر میں سے اپنے حصے کا آدھا حق مہر عورت سے واپس نہ لے اور پورا کا پورا مہر ہی عورت کے پاس رہنے دے (یا اس کو دے دے)۔ (ص۔ ی)] پھر اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ جو کوئی معاف کردیتا ہے وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا احسان ہے جو شرح صدر کا موجب ہے، نیز انسان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو احسان اور نیکی سے تہی دست نہ رکھے اور اس فضیلت کو فراموش نہ کر دے جو معاملات کا بلند ترین درجہ ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے آپس کے معاملات کے دو درجے ہیں۔ (1) عدل و انصاف جو کہ واجب ہے۔ یعنی حق واجب لینا اور کسی کا جو حق واجب ہے اسے ادا کرنا۔ (2) فضل و احسان اور اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کو کچھ عطا کرنا جس کا عطا کرنا واجب نہ تھا اور اپنے حقوق کے بارے میں چشم پوشی اور مسامحت سے کام لینا۔ پس انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس درجہ کو فراموش کر دے خواہ کبھی کبھار ہی سہی۔ خاص طور پر آپ اس شخص کے ساتھ تسامح کو ہرگز فراموش نہ کریں جس کے ساتھ آپ کے تعلقات اور میل جول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو احسان کے بدلے میں اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿’ۭ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾’ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔ “