سورة طه - آیت 72

قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جادوگروں نے کہا کہ ہم تمہیں ہرگز ترجیح (٢٦) نہیں دیں گے ان واضح دلائل پر جو ہمارے سامنے آچکے ہیں، اور اس ذات برحق پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، تو تمہیں جو فیصلہ کرنا ہے کر گزرو، تم صرف اسی دنیاوی زندگی میں ہی فیصلہ کرسکتے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس لیے جب جادوگردوں نےحق کوپہچان لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کوعقل دےدی جس کی بناء پر انہوں نے حقائق کا ادراک کرلیا تو انہوں نے جواب دیا۔﴿ لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ﴾ ”ہم ہرگز تجھ کو ترجیح نہیں دیں گے ان دلیلوں پر جو ہمارے پاس آئیں۔“جواس حقیقت پردلالت کرتی ہیں کہ اللہ اکیلا ہی رب ہے، وہ اکیلا ہی معظم اور معززہےا ور اس کےسوا (دوسرےتمام )معبود باطل ہیں۔تجھے ہم اس ہستی پرترجیح دیں جس نے ہمیں پیدا کیا؟یہ نہیں ہوسکتا۔﴿ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ﴾ ”پس توجوکرسکتاہے کرلے۔“یعنی جن باتوں سےتونے ہمیں ڈرایا ہے،ہاتھ پیر کاٹنےسے،سولی پرچڑھانے سے اورسخت سزا سے، وہ تو دےکر دیکھ لے۔﴿إِنَّمَا تَقْضِي هَـٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴾توہمیں جس تعذیب کی دھمکی دیتاہے ا س کی غایت وانتہاء یہ ہے کہ توصرف اس دنیا میں ہمیں عذاب دے سکتاہےجوختم ہوجانےو الا ہے یہ عذاب ہمیں کوئی نقصان نہیں دے سکتا۔ اس کےبرعکس اس شخص کےلیے اللہ تعالیٰ کا دائمی عذاب ہے جو اس کا انکارکرتاہے۔ یہ گویا فرعون کے اس قول کا جواب ہے﴿ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ﴾ جادوگروں کے اس کلام میں اس بات کی دلیل ہے کہ عقل مند کے لئے مناسب ہے کہ وہ دنیا کی لذتوں اور آخرت کی لذتوں، دنیا کے عذاب اور آخرت کے عذاب کے مابین موازنہ کرے۔