سورة طه - آیت 36

قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ نے کہا، اے موسیٰ آپ کی مانگ (١٤) پوری کردی گئی

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ﴾ اے موسیٰ! جو کچھ تو نے مانگا ہے تجھ کو عطا کیا جاتا ہے، ہم تجھ کو انشراح صدر عطا کردیں گے، تیرے معاملے کو آسان کردیں گے، تیری زبان کی گرہ کھول دیں گے، لوگ تیری بات کو سمجھیں گے اور ہم تیرے بھائی ہارون کے ذریعے سے تیرے ہاتھ مضبوط کردیں گے۔ ﴿وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا  بِآيَاتِنَا أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ﴾(القصص:28؍35) ” ہم تم دونوں کو غلبہ دیں گے اور وہ تمہاری نشانیوں کے سبب سے تم دونوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، غلبہ تم دونوں اور تمہارے متبعین ہی کا ہوگا۔ “ موسیٰ علیہ السلام کا سوال اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل تھی، آپ کمال درجے کے ذہین و فطین تھے اور تمام معاملات کی کامل معرفت رکھتے تھے اور کامل خیر خواہی سے بہرہ ور تھے، نیز یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوق کی راہنمائی کرنے والا۔۔۔ خاص طور پر جب اس داعی کے مخاطب اہل عناد، متکبر اور سرکش لوگ ہوں۔۔۔ کشادہ دلی، اذیتوں پر بردباری اور فصاحت، زبان، جس کے ذریعے سے وہ اپنے مقاصد اور ارادوں کی تعبیر پر قادر ہو، محتاج ہوتا ہے بلکہ اس مقام پر فائز شخص کے لئے فصاحت و بلاغت نہایت ضروری ملکہ ہے کیونکہ اسے کثرت سے بحث و تکرار کی ضرورت پیش آتی ہے، علاوہ ازیں یہ بھی اس کی ضرورت ہے کہ وہ حتی المقدور حق کو خوبصورت اور مزین کر کے پیش کرے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو اور باطل کی قباحت و شناعت کو اجاگر کرے تاکہ لوگ اس سے متنفر ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ داعی حق اس بات کا بھی محتاج ہے کہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا ہو اور وہ اس کے لئے درست طریق کار اختیار کرے۔ حکمت، اچھی نصیحت اور بہترین طریق گفتگو کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف دعوت دے اور لوگوں کے ساتھ ان کے حسب حال معاملہ کرے اور ان سب باتوں کی تکمیل یہ ہے کہ جو شخص یہ وصف رکھتا ہو اس کے کچھ اعوان و مددگار ہوں جو اس کے مقصد کے حصول میں اس کی مدد کریں کیونکہ جب آوازیں زیادہ ہوں گی تو وہ زیادہ اثر انداز ہوں گی، اسی لئے موسیٰ علیہ السلام نے ان امور کا سوال کیا تھا جو انہیں عطا کردیئے گئے۔ اگر آپ انبیاء کی حالت پر غور کریں گے، جن کو مخلوق کی طرف بھیجا گیا، تو ان کے احوال کے مطابق ان کو اسی حال میں پائیں گے۔ خاص طور پر افضل الانبیاء خاتم المرسلین جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو، جو ہر صفت کمال میں بلند ترین درجے پر فائز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح شرح صدر، تیسیرا امر، فصاحت زبان، حسن تعبیر و بیان اور حق کی راہ میں اعوان و انصار یعنی صحابہ و تابعین اور ان کے بعد آنے والوں سے نوازا گیا، دوسرے انبیاء کو یہ خوبیاں اس انداز سے میسر نہیں آئیں۔