وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دے دو، اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں، تو انہیں اس بات سے نہ روکو (326) کہ وہ اپنے گذشتہ شوہروں سے دوبارہ شادی کرلیں، اگر وہ مشروع شرائط کے مطابق آپس میں راضی ہوجائیں، یہ نصیحت تم میں سے انہیں کی جا رہی ہے، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمہارے لیے زیادہ پا کیزگی اور طہارت نفس کی بات ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے۔
یہ خطاب اس مطلقہ عورت کے سرپرستوں سے ہے جسے تین سے کم طلاق دی گئی ہو، عدت پوری ہونے کے بعد اس کا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کا خواہاں ہو اور وہ عورت بھی اس نکاح پر راضی ہو تو اس عورت کے ولی کے لئے خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور، جائز نہیں کہ اسے نکاح کرنے سے روکے، یعنی پہلی طلاق پر اپنے غصہ، بغض اور نفرت کی بنا پر، میاں بیوی کو نکاح کرنے سے روکنے سے منع کرتا ہے، کیونکہ عورت کا اپنے خاوند کے ساتھ تجدید نکاح تمہارے لئے اس سے زیادہ پاک اور بہتر ہے جو عورت کا ولی سمجھتا ہے کہ عدم نکاح درست رائے ہے اور نکاح سے روکنا (انتقاماً) پہلی طلاق کا جواب ہے۔ جیسا کہ متکبر اور نام نہاد اونچے گھرانوں کے لوگوں کی عادت ہے۔ پس اگر ولی یہ سمجھتا ہے کہ عدم نکاح ہی میں میاں بیوی کی مصلحت ہے تو ﴿ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾” اسے اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے“ پس اس ہستی کی اطاعت کرو جو تمہارے مصالح کا تم سے زیادہ علم رکھتی ہے، وہ تمہارے لئے یہ مصالح چاہتی ہے، وہ ان پر قادر ہے اور ان کو تمہارے لئے اس طرح آسان بناتی ہے جن کو تم خوب جانتے ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء (یعنی سرپرستوں) کو عورتوں کے نکاح سے روکنے سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کو اسی چیز سے روکتا ہے جو ان کی تدبیر کے تحت آتی ہو اور اس میں ان کا حق ہو۔