سورة مريم - آیت 67

أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا انسان یہ بات یاد نہیں رکھا ہے کہ ہم نے اس کو پہلے بھی پیدا کیا تھا جب وہ کچھ بھی نہیں تھا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا﴾ کیا وہ اس طرف التفات نہیں کرتا اور اپنی پہلی حالت کو یاد نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلی مرتبہ پیدا کیا جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔ پس جو ہستی اسے عدم سے وجود میں لانے کی قدرت رکھتی ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا، کیا وہ ہستی اسے اس کے ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے کی اور اس کے بکھر جا نے کے بعد اس کو دوبارہ اکٹھا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی؟ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ﴾ (الروم :30؍27) ”وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے اور ایسا کرنا اس کے لئے آسان تر ہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ﴾ میں لطیف ترین پیرائے میں عقلی دلیل کے ذریعے سے غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے، اس کا انکار پہلی حالت کے بارے میں اس کی غفلت پر مبنی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اس کو یاد کر کے اپنے ذہن میں حاضر کرنے کی کوشش کرے تو وہ ہرگز انکار نہیں کرے گا۔