سورة مريم - آیت 61

جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

عدن نام کی ان جنتوں میں داخل ہوگا جن کا رحمن نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ کر رکھا ہے، بیشک اس کا وعدہ وپرا ہو کر رہے گا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جنت جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے عام باغات کی مانند نہیں، بلکہ وہ تو ﴿جَنَّاتِ عَدْنٍ ﴾ ” ہمیشہ قیام والی جنتیں ہیں“ جہاں نازل ہونے والے کبھی کوچ کریں گے نہ کہیں اور منتقل ہوں گے اور نہ ان کی نعمتیں زائل ہوں گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ جنتیں بہت وسیع ہوں گی اور ان میں بے شمار نعمتیں، مسرتیں، رونقیں اور خوش کن چیزیں ہوں گی۔ ﴿الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ﴾ یعنی جس کا رحمان نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنے اسم مبارک (الرحمان) کی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ ان میں ایسی رحمتیں اور ایسا حسن سلوک ہوگا کہ ان کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے تصور میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو اپنی رحمت سے موسوم فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللّٰـهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾ (آل عمران : 3؍107) ’’اور جن کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔“ نیز اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف ان کی اضافت، ان کی مسرتوں کے دوام پر دلالت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بقاء کے ساتھ یہ بھی باقی رہیں گی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار اور اس کی موجبات میں شمار ہوتی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں (عِبَاد) سے مراد اس کی الوہیت کے معتقد وہ بندے ہیں جو اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی شریعت کا التزام کرتے ہیں۔ پس عبودیت ان کا وصف بن جاتی ہے، مثلاً (عباد الرحمٰن) وغیرہ بخلاف ان بندوں کے جو ملک کے اعتبار سے تو اس کے بندے ہیں مگر اس کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ بندے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بندے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا، وہ ان کو رزق عطا کرتا ہے اور ان کی تدبیر کرتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے بندے نہیں اور اس کی عبودیت اختیاری کے تحت نہیں آتے جس کو اختیار کرنے والا قابل مدح ہے۔ ان کی عبودیت تو عبودیت اضطراری ہے جو قابل مدح نہیں۔ ارشاد مقدس ﴿بِالْغَيْبِ﴾ میں یہ احتمال ہے کہ ﴿وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ﴾ سے متعلق ہو تب اس احتمال کی صورت میں یہ معنی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ان جنتوں کا غائبانہ وعدہ کیا ہے جن کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے نہ ان کو دیکھا ہے، وہ ان پر ایمان لائے، غائبانہ ان کی تصدیق کی اور ان کے حصول کے لئے کوشاں رہے، حالانکہ انہوں نے ان کو دیکھا ہی نہیں اور اگر وہ ان کو دیکھ لیتے تب ان کا کیا حال ہوتا، اس صورت میں ان کی شدید طلب رکھتے ہیں، ان میں بہت زیادہ رغبت رکھتے اور ان کے حصول کے لئے سخت کوشش کرتے۔ اس میں ان کے ایمان بالغیب کی بنا پر ان کی مدح ہے، یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ دیتا ہے، نیز اس امر کا احتمال بھی ہے کہ (بالغیب) (عبادہ) سے متعلق ہو یعنی وہ لوگ جنہوں نے حالت غیب میں اور اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس کی عبادت کی۔ ان کی عبادت کا یہ حال ہے حالانکہ انہوں نے اس کو دیکھا نہیں اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو وہ اس کی بہت زیادہ عبادت کرتے اور اس کی طرف بہت زیادہ رجوع کرتے اور اللہ تعالیٰ کے لئے ان کے اندر بہت زیادہ محبت اور اشتیاق ہوتا۔ اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جنتیں، جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے، ان کا تعلق ایسے امور کے ساتھ ہے جو اوصاف کے دائرہ ادر اک سے باہر ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پس اس آیت کریمہ میں جنت کے لئے شوق ابھارا گیا ہے، نیز آیت کریمہ میں بیان کردہ مجمل وصف نفوس کو اس کے حصول اور ساکن کو اس کی طلب میں متحرک کرتا ہے اور یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾(السجدة:32؍17) ” کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کے لئے آنکھوں کی کون سی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔“ مذکورہ تمام معانی صحیح اور ثابت ہیں۔ البتہ پہلا احتمال زیادہ صحیح ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا﴾ ” بے شک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔“ یعنی یہ ضرور ہو کر رہے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ وہ سب سے زیادہ سچی ہستی ہے۔