سورة مريم - آیت 58

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہی وہ انبیاء (٣٦) ہیں جن پر اللہ نے اپنا خاص انعام کیا تھا، جو آدم کی اولاد اور ان کی اولاد سے تھے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا اور جو ابراہیم اور یعقوب کی اولاد سے تھے اور وہ ان میں سے تھے جنہیں ہم نے ہدایت دی تھی اور جنہیں ہم نے چن لیا تھا، جب ان کے سامنے رحمن کی آیتوں کی تلاوت ہوتی تھی تو سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے زمین پر گر جاتے تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تعالیٰ نے ان انبیائے مکرمین اور خواص مرسلین کا ذکر فرمایا اور ان کے فضائل و مراتب کا تذکرہ کیا، تو فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی نعمت عطا کی ہے جسے کوئی اور حاصل نہیں کرسکتا، نبوت اور رسالت عطا کر کے ان پر ایسا احسان کیا ہے جس میں کوئی سبقت نہیں کرسکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان لوگوں کے راستے کی طرف ہماری راہنمائی کرے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، نیز یہ کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا ﴿مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ﴾ (النساء :4؍69) جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ ان میں سے بعض ﴿مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ﴾ ” آدم کی اولاد میں سے ہیں اور کچھ ان میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کردیا۔“ یعنی نوح کی ذریت میں سے ہیں۔ ﴿وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ  ﴾ یہ گھرانے دنیا کے تمام گھرانوں سے بہتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے لئے پسند کرلیا اور چن لیا۔ جب ان کے سامنے رحمٰن کی وہ آیات تلاوت کی جاتی تھیں جو غیب کی خبروں، علام الغیوب کی صفات، روز آخرت کی خبروں اور وعدو وعید کو متضمن ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے۔ ﴿خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ﴾ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے سامنے سرتسلیم خم کردیا۔ ان آیات نے ان کے دلوں کو ایمان اور رغبت و رہبت سے لبریز کردیا جو ان کے لئے آہ و بکا، انابت اور اپنے رب کے حضور سجدے کی موجب ہیں۔ وہ ان لوگوں کی مانند نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سنتے ہیں تو ان پر اندھے بہرے بن کر رہ جاتے ہیں۔ آیات کی، اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک (رحمان) کی طرف اضافت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کے بندوں پر اس کی رحمت اور احسان ہے کیونکہ اس نے آیات کے ذریعے سے ان کی حق کی طرف راہنمائی کی، ان کی کورنگاہی کو دور کر کے بصیرت سے نوازا، انہیں گمراہی سے بچایا اور جہالت کی تاریکیوں میں انہیں علم کی روشنی عطا کی۔