وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا
اور آپ قرآن میں اسماعیل کا ذکر (٣٤) کیجیے وہ وعدہ کے بڑے سچے تھے، اور رسول و نبی تھے۔
یعنی قرآن کریم میں اس عظیم نبی (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کا ذکر کیجیے جس سے عربی قبیلے کی نسل چلی جو سب سے افضل اور جلیل قبیلہ ہے، جس سے اولاد آدم کے سردار، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔ ﴿ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ﴾ یعنی وہ جو بھی وعدہ کرتے تھے اسے پورا کرتے تھے۔ اس میں وہ تمام وعدے شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کئے گئے اور وہ جو بندوں سے کئے گئے۔۔۔ اسی لئے جب ان کے والد نے ان کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنے آپ سے صبر کرنے کا وعدہ کیا، چانچہ انہوں نے اپنے والد سے کہا ﴿ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴾ )الصٰفّٰت :37؍102) ” اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔“ انہوں نے یہ وعدہ پورا کر دکھایا اور اپنے والد کو پورا اختیار دیا کہ وہ ان کو ذبح کریں، جو کہ سب سے بڑی مصیبت ہے جو انسان کو پہنچ سکتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو رسالت اور نبوت سے متصف کیا جو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر سب سے بڑا احسان ہے۔۔۔ اور انہیں مخلوق کے بلند طبقے میں سے کیا۔