سورة مريم - آیت 51

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ قرآن میں موسیٰ کا ذکر (٣١) کیجیے وہ بیشک (اللہ کے) چنے بند اور رسول و نبی تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی اس قرآن عظیم میں، حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران کی تعظیم و توقیر، ان کے مقام عالی قدر اور اخلاق کاملہ کی تعریف کے طور پر، ان کا ذکر کیجیے۔ ﴿ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا﴾ (مُخْلَصًا ) کو لام کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی، اسے پسند کرلیا اور اسے چن لیا۔ ایک دوسری قراءت میں (مُخْلِصًا) کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے تب اس کا معنی یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے تمام اعمال، اقوال اور نیت میں اللہ تعالیٰ کے لئے مخلص تھے۔ ان کے تمام احوال میں اخلاص ان کا وصف تھا۔۔۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اخلاص کی بنا پر ان کو چن لیا اور ان کا اخلاص اس بات کا موجب تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو چن لے اور بندہ مومن کا جلیل ترین حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے لئے اخلاص کا حامل ہو اور اس کا رب اسے اپنے لئے چن لے۔ ﴿وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا  ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں رسالت اور نبوت کو یکجا کردیا۔ پس رسالت، بھیجنے والے کے کلام کی تبلیغ کا تقاضا کرتی ہے، نیز یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ شریعت کی جو بھی چھوٹی یا بڑی چیز آئی ہے اسے بندوں تک پہنچایا جائے۔۔۔ اور نبوت اس بات کی مقتضی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی آتی ہو اور اللہ تعالیٰ نے وحی کی تنزیل کے لئے اسے مختص کرلیا ہو۔ پس نبوت کا تعلق بندے اور اس کے رب کے درمیان ہے اور رسالت کا تعلق بندے اور مخلوق کے درمیان ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی جلیل ترین اور سب سے افضل نوع کے ساتھ خاص فرمایا اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ان سے کلام کرنا اور انہیں اپنی سرگوشی کیلئے اپنے قریب کرنا۔ انبیاء میں سے اس فضیلت کے ساتھ صرف موسیٰ علیہ السلام کو خاص کیا گیا کہ وہ رحمان کے کلیم ہیں۔