وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا
اور لوگو ! میں تم سب سے جدا (٢٩) ہوتا ہوں اور ان معبودوں سے بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، اور میں اپنے رب کو پکاروں گا مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر (اس کی رحمت سے) محروم نہیں رہوں گا۔
جب ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم اور اپنے باپ کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، تو کہنے لگے : ﴿وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ یعنی میں تم سے اور تمہارے بتوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں ﴿وَأَدْعُو رَبِّي ﴾ ” اور میں یہ دعا کروں گا اپنے رب سے“ یہ دعائے عبادت اور دعائے سوال دونوں کو شامل ہے۔ ﴿عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا﴾ ” امید ہے کہ میں اپنے رب سے دعا کر کے محروم نہ رہوں گا“ یعنی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا اور اعمال کو قبول فرما کر مجھے سعادت سے نواز دے۔ یہ اس داعی حق کا وظیفہ ہے جو ایسے لوگوں سے مایوس ہوگیا تھا جن کو اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی مگر وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے رہے اور وعظ و نصیحت نے ان کو کوئی فائدہ نہیں دیا اور وہ اپنی سرکشی میں اصرار کے ساتھ سرگرداں رہے۔ جو کوئی اس قسم کی صورت حال میں مبتلا ہوجائے تو اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح میں مشغول رہے اور اپنے رب سے امید رکھے کہ وہ اس کی کوشش کو قبول فرمائے گا اور وہ شر اور اہل شر سے دور رہے۔