فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا
پھر زچگی کی تکلیف (١١) نے اسے کھجور کے درخت کے پاس پہنچا دیا، کہنے لگی، اے کاش ! میں اس سے پہلے ہی مرچکی ہوتی اور ایک بھولی بسری یاد بن گئی ہوتی۔
جب حضرت مریم علیہا السلام کو زچگی کی تکلیف برداشت کرنا پڑی، کھانے پینے کی عدم موجودگی کی تکلیف کا سامنانا کرنا پڑا اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں اور طعنوں سے دلی صدمہ پہنچا اور انہیں خوف ہوا کہ کہیں صبر کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔۔۔ تو انہوں نے تمنا کی کہ کاش وہ اس حادثہ سے پہلے ہی مر گئی ہوتیں، ان کو بھلا دیا جاتا اور ان کا کہیں تذکرہ تک نہ ہوتا۔ حضرت مریم علیہا السلام کی یہ تمنا ان کی گھبراہٹ کی بنا پر تھی اور اس آرزو اور تمنا میں ان کے لئے کوئی بھلائی تھی نہ مصلحت۔ بھلائی اور مصلحت تو صرف تقدیر کے مطابق اس چیز میں تھی جو انہیں حاصل ہوئی۔