سورة مريم - آیت 5

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے مطمئن نہیں ہوں (کہ وہ دعوت کا کام جاری رکھیں گے) اور میری بانجھ ہے اس لیے تو مجھے اپنے پاس سے ایک لڑکا عطا کر۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي﴾ ” اور میں ڈرتا ہوں بھائی بندوں سے اپنے پیچھے“ یعنی مجھے خدشہ ہے کہ میری موت کے بعد بنی اسرائیل پر کون مقرر ہوگا؟ وہ تیرے دین کو اس طرح قائم نہیں کرسکیں گے جس طرح قائم کرنے کا حق ہے اور وہ تیرے بندوں کو تیری طرف دعوت نہیں دیں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آرہا تھا جس میں یہ لیاقت ہو کہ وہ ان کی دینی سربراہی کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ اس سے حضرت زکریا علیہ السلام کی شفقت اور خیر خواہی کا اظہار ہوتا ہے نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے، کہ آپ کو بیٹے کی طلب عام لوگوں کے مانند نہ تھی، جس میں مجرد دنیاوی مصلحتیں مقصود ہوتی ہیں۔ آپ کی طلب تو صرف دینی مصالح کی بنا پر تھی آپ کو خدشہ تھا کہ کہیں دین ضائع نہ ہوجائے اور آپ کسی دوسرے کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا گھرانہ مشہور دینی گھرانوں میں سے تھا اور رسالت و نبوت کا گھر شمار ہوتا تھا اور اس گھرانے سے ہمیشہ بھلائی کی امید رکھی جاتی تھی، اس لئے حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی کہ وہ انہیں بیٹا عطا کرے جو ان کے بعد دینی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کی بیوی بانجھ ہے اور وہ بچہ جننے کے قابل نہیں اور وہ خود بھی بہت بوڑھے ہوگئے ہیں اور ایسی عمر میں داخل ہوگئے ہیں کہ جس میں شہوت اور اولاد کا وجود بہت نادر ہے۔ انہوں نے عرض کی : ﴿فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا﴾ ” سو عطا کر تو مجھ کو اپنی طرف سے ایک معاون“ اور یہ ولایت، دینی ولایت ہے اور نبوت، علم اور عمل کی میراث ہے۔