سورة الكهف - آیت 110

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہیے کہ میں تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں (٦٥) مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے تو جو شخص اپنے رب سے ملنے کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے، اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ قُلْ﴾ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کفار سے کہہ دیجئے ! ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ﴾ ” میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم“ یعنی میں معبود نہیں، اقتدار الٰہی میں میرا کوئی حصہ ہے نہ میرے پاس کوئی علم غیب ہے اور نہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہی ہیں : ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ﴾ میں اپنے رب کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں۔ ﴿ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ﴾ ” وحی آتی ہے مجھ پر کہ تمہارا معبود ایک معبود ہے“ یعنی مجھے تم پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ میری طرف وحی کرتا ہے اور جلیل ترین وحی یہ ہے کہ اس نے تمہیں آگاہ کیا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہے، یعنی اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ کوئی ذرہ بھر عبادت کا مستحق ہے اور میں تمہیں ان اعمال کی دعوت دیتا ہوں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس کے ثواب سے بہرہ ور کرتے ہیں اور تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا : ﴿فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا ﴾ ” پس جس کو امید ہو اپنے رب سے ملاقات کی، سو وہ کرے نیک عمل۔“ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو واجب اور مستحب ہیں۔ ﴿وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴾ ” اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے“ یعنی اپنے اعمال میں ریا سے کام نہ لے بلکہ اس کے اعمال خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جو اخلاص اور اتباع کی جامع ہے اور اسی سے مطلوب ثواب حاصل ہوسکتا ہے۔ اس طریقے کے سوا دیگر طریقوں کو اختیار کرنے والے لوگ اپنی دنیاو آخرت میں خائب و خاسر لوگ ہیں۔ جو اپنے آقا و مولا کے قرب اور اس کی رضا کے حصول سے محروم ہوں گے۔