حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا
یہاں تک کہ جب وہ آفتاب ڈوبنے کی جگہ (٥٣) پہنچ گیا تو اسے گرم کیچڑ کے ایک چشم میں ڈوبتا ہوا پایا اور وہاں سے ایک قوم ملی ہم نے کہا، اے ذوالقرنین ! (تمہیں اختیار ہے) یا تو انہیں تم عذاب دو یا ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرو۔
پس اللہ تعالیٰ نے اسے وہ اسباب عطا کئے جن کے ذریعے سے وہ غروب آفتاب کی حد تک پہنچ گیا جہاں اس نے چشمے میں سورج کا عکس دیکھا گویا کہ وہ گدلے یعنی سیاہ پانی میں ڈوب رہا تھا۔ یہ منظر اس شخص کے لئے عام ہے، جس کے اور مغربی افق کے درمیان پانی ہو۔ اسے ایسے نظر آئے گا گویا سورج پانی کے اندر غروب ہو رہا ہے۔ اگرچہ وہ بہت بلندی پر ہو۔ اور مغرب کی سمت میں ذوالقرنین کو ایک قوم ملی۔ ﴿ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا ﴾ ” ہم نے کہا : اے ذوالقرنین ! یا تو لوگوں کو تکلیف دے یا ان میں (اپنی بابت) خوبی رکھ“ یعنی خواہ تو ان کو قتل و ضرب یا قیدی بنا کر عذاب میں مبتلا کریا ان پر احسان کر۔ ذوالقرنین کو ان دو امور میں سے ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ کفار یا فاسق قوم تھی یا ان میں کچھ کفر اور فسق موجود تھا کیونکہ اگر وہ غیر فاسق مومن ہوتے تو ان کو عذاب دینے کی اجازت نہ دی جاتی۔ پس ذوالقرنین کو سیاست شرعیہ کا کچھ حصہ ملا تھا، جس کے ذریعے سے اس نے اللہ کی توفیق سے ایسے کام کئے جن پر وہ مدح و ستائش کا مستحق ٹھہرا، چنانچہ اس نے کہا : ان کو دو قسموں میں تقسیم کر دوں گا۔