فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا
تو ان دونوں ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور جسے ہم نے پاس سے علم عطا کیا تھا۔
﴿آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا ﴾ ” جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی تھی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ علم اور حسن عمل سے بہرہ ور تھے۔ ﴿ وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ ”اور سکھایا تھا اس کو اپنے پاس سے ایک علم۔“ حضرت خضر کو وہ علم عطا کیا گیا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کو عطا نہیں کیا گیا تھا۔ اگرچہ موسیٰ علیہ السلام بہت سے امور میں ان سے زیادہ علم رکھتے تھے خاص طور پر علوم ایمانیہ اور علوم اصولیہ، کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسولوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل کے ذریعے سے تمام مخلوق پر فضیلت سے نوازا تھا۔