وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ۚ وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ ۖ وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَمَا أُنذِرُوا هُزُوًا
اور ہم رسولوں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ لوگوں کو جنت (٣٣) کی خوشخبری دیں اور جہنم سے ڈرائیں اور اہل کفر، باطل شبہات کے ذریعہ جھگڑتے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ حق کو ختم کردیں اور میری آیتوں کا اور اس عذاب کا جس سے وہ ڈرائے جاتے ہیں مذاق اڑاتے ہیں۔
یعنی ہم رسولوں کو عبث اور بے فائدہ نہیں بھیجتے نہ ان کو اس لئے مبعوث کرتے ہیں کہ لوگ ان کو معبود بنا لیں اور نہ اس لئے کہ وہ خود معبود ہونے کا دعویٰ کریں بلکہ ہم نے انہیں صرف اس لئے مبعوث کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو ہر بھلائی کی طرف بلائیں اور ہر برائی سے روکیں اطاعت کرنے پر ان کو دنیاوی اور اخروی ثواب کی خوشخبری سنائیں اور نافرمانی کرنے پر دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈرائیں۔ پس رسولوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر حجت قائم ہوگئی۔ بایں ہمہ ظالم کفار باطل ہتھکنڈوں کے ساتھ حق کو نیچا دکھانے کے لئے جھگڑتے ہیں۔ پس جہاں تک ممکن ہوا کفار حق کے ابطال اور اس کے نیچا دکھانے کے لئے باطل کی مدد میں کشواں رہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی آیات کا تمسخر اڑایا اور ان کے پاس جو کچھ علم تھا اسی پر اتراتے رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہیں رہتا اگرچہ کفار کو یہ بات ناپسند ہی کیوں نہ ہو، وہ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ ﴿بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ﴾ (الانبیاء:21؍18) ” بلکہ ہم تو باطل پر حق کے ذریعے سے چوٹ لگاتے ہیں جو اس کو نیست و نابود کردیتی ہے، اور باطل دیکھتے ہی دیکھتے مٹ جاتا ہے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت ہے کہ اس کا باطل ہتکنڈوں کے ذریعے سے حق کے خلاف جھگڑنے والے باطل پسندوں کو مقرر کرنا، حق کے ظہور اور اس کے شواہد و دلائل کی توضیح، باطل اور اس کے فساد کے ظاہر ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ کیونکہ : ﴿بضدھا تتبین الاشیاء﴾ ” اشیاء اپنی ضد ہی سے واضح ہوتی ہیں۔ “