وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًا
اور اللہ کے سوا اس کا کوئی ایسا گروہ نہیں تھا جو اس کی مدد کرتا، اور نہ اس میں انتقام لینے کی قدرت تھی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللّٰـهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًا﴾ ’’اور نہ ہوئی اس کی کوئی جماعت کہ وہ اس کی مدد کرے اور نہ ہوا وہ خود بدلہ لینے والا“ یعنی جب اس کے باغ پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو ہر چیز اس کے ہاتھوں سے نکل گئی جس پر وہ فخر کیا کرتا تھا جس کے زعم پر کہا کرتا تھا : ﴿أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا ﴾ یہ اعوان و انصار اس سے کچھ بھی عذاب دور نہ کرسکے جبکہ اسے ان کی سخت ضرورت تھی اور وہ خود بھی اپنی مدد نہ کرسکا اور وہ اس عذاب سے کیسے بچ سکتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے مقابلے میں کون اس کی مدد کرسکتا تھا جس کا فیصلہ جب اللہ تعالیٰ جاری فرما دیتا ہے تو زمین و آسمان کے تمام رہنے والے ملکر بھی اس میں سے کسی چیز کو زائل کرنا چاہیں تو وہ اس کی قدرت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے لطف و کرم سے بعید نہیں کہ اس شخص نے جس کے باغ پر آفت نازل ہوئی تھی، اپنے احوال کی اصلاح کرلی ہو، وہ اپنے رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آیا ہو اور اس کا تمام تکبر اور اس کی سرکشی ختم ہوگئی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنے شرک پر ندامت کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے تمرد اور سرکشی کو دور کر کے اس کو دنیا ہی میں سزا دے دی ہو کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے اس دنیا ہی میں سزا دے دیتا ہے۔ عقل و وہم اللہ تعالیٰ کے فضل کا احاطہ نہیں کرسکتے اور اس کا انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو ظالم اور سخت جاہل ہے۔