وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا
اور اس کے پاس دوسرے میوہ جات بھی ہوتے تھے تو اس نے اپنے ساتھی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے مال میں زیادہ ہوں اور جاہ و حشم کے اعتبار سے بھی تم سے زیادہ عزت والا ہوں۔
﴿وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ ﴾ اور اس شخص کا باغ بہت پھل لایا تھا جیسا کہ لفظ ( ثَمَرٌ) کے نکرہ ہونے سے مستفاد ہوتا ہے۔ اس کے باغوں کا پھل پوری طرح پک گیا تھا ان کے درخت پھل کے بوجھ سے جھک رہے تھے۔ ان پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی تھی۔ پس یہ کھیتی باڑی کے پہلو سے دنیا کی زیب و زینت کی انتہاہے، اس وجہ سے وہ شخص دھوکے میں پڑگیا، تکبر کرنے اور اترانے لگا اور اپنی آخرت کو فراموش کر بیٹھا۔ ان باغوں کے مالک نے اپنے صاحب ایمان ساتھی سے نہایت فخر سے کہا جبکہ وہ دونوں روز مرہ کے بعض معاملات میں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے تھے : ﴿ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا ﴾ ” میرے پاس تجھ سے زیادہ مال ہے اور زیادہ آبرو والے لوگ“ اس نے اپنے مال کی کثرت اور اپنے اعوان و انصار، یعنی اپنے غلام و خدام اور عزیز و اقارب کی طاقت پر فخر کا اظہار کیا۔ یہ اس کی جہالت تھی ورنہ ایک ایسے خارجی امر میں کون سی فخر کی بات ہے جس میں کوئی نفسی فضیلت ہے نہ معنوی صفت۔ یہ تو ایک بچے کا سا فخر ہے جو محض اپنی آرزؤں پر فخر کرتا ہے جن کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔