سورة البقرة - آیت 210

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس بادلوں کے سائبانوں میں (عذاب لے کر) آجائے اور فرشتے آجائیں اور ان کے معاملے کا فیصلہ ہوجائے اور تمام امور بالآخر اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ بہت سخت وعید اور تہدید ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے، زمین میں فساد پھیلانے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے والے روز جزا کے منتظر ہیں جو ہولناکیوں، سختیوں اور خوفناک مناظر سے بھرپور ہوگا اور بڑے بڑے ظالموں کے دل دہلا دے گا اور جس میں فساد برپا کرنے والوں کو ان کے اعمال کی بری جزا گھیر لے گی۔ یہ سب کچھ یوں ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زمین و آسمان کو لپیٹ دے گا، ستارے بکھر جائیں گے، سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے۔ مکرم فرشتے نازل ہوں گے اور تمام خلائق کو گھیرے میں لے لیں گے اور اللہ تعالیٰ بادلوں کے سائے میں نزول فرمائے گا، تاکہ وہ اپنے بندوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے۔ ترازو نصب کردی جائیں گی، اعمال نامے کھول کر پھیلا دیئے جائیں گے سعادت مند لوگوں کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے اور بدبخت گناہگاروں کے چہرے سیاہ اور تاریک ہوں گے۔ نیک لوگ بدکاروں سے علیحدہ ہوجائیں گے اور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ پس ظالم وہاں (افسوس کے طور پر) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا، جب اپنی آنکھوں سے روز جزا کی حقیقت کا مشاہدہ کرے گا۔ یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات اہل سنت و الجماعت کے مذہب کی حقانیت پر دلالت کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اختیاری، مثلاً استواء علی العرش ” نزول“ اور ” آمد“ جیسی صفات کا اثبات کرتی ہیں جن کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اہل سنت بغیر کسی تشبیہ، تعطیل اور تاویل و تحریف کے ان صفات کا ان کے ایسے معانی کے ساتھ اثبات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کے لائق ہیں۔ اس کے برعکس اہل تعطیل کے مختلف گروہ، مثلاً جہمیہ، معتزلہ، اور اشاعرہ وغیرہ ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور پھر اپنے مذہب کی تائید کے لئے ان آیات کریمہ کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویلات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبیین کو ناقص قرار دیتی ہیں۔ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اس بارے میں صرف ان کی تاویلات ہی کے ذریعے سے ہدایت حاصل ہوسکتی ہے۔ پس ان لوگوں کے پاس کوئی نقلی دلیل، بلکہ کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ جہاں تک نقلی دلیل کی بات ہے تو ان لوگوں کو خود اعتراف ہے کہ قرآن اور سنت کے ظاہری الفاظ بلکہ واضح الفاظ اہل سنت کے مذہب پر دلالت کرتے ہیں۔ جب کہ یہ حضرات اپنے باطل مذہب کی تائید اور اس کو ثابت کرنے کے لئے ان نصوص کے ظاہری معنی سے باہر نکلنے اور ان میں کمی بیشی کرنے پر مجبور ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس چیز کو کوئی ایسا شخص پسند نہیں کرسکتا جس کے دل میں رتی بھر بھی ایمان ہے۔ رہی عقلی دلیل تو کوئی عقلی دلیل ایسی نہیں جو مذکورہ صفات الٰہی کی نفی پر دلالت کرے، بلکہ عقل تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فاعل، فعل پر قدرت نہ رکھنے والے سے زیادہ کامل ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فعل، جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہو یا اس کی مخلوق سے متعلق، وہ ایک کمال ہی ہے۔ اگر وہ یہ اعتراض کریں کہ ان صفات کا اثبات، مخلوق کے ساتھ تشبیہ پر دلالت کرتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفات پر بحث، ذات پر بحث کے تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات پر بحث، ذات پر بحث کے تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذات کے تابع ہیں اور مخلوق کی صفات ان کی ذات کے تابع ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات سے، کسی بھی پہلو سے مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی۔ نیز اس شخص سے یہ بھی کہا جائے گا، جو اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا اقرار کرتا ہے اور اس کی بعض صفات کا منکر ہے یا وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کا اقرار کرتا ہے اور اس کی صفات کی نفی کرتا ہے کہ یا تو آپ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اثبات کریں جیسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے لئے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صفات کا اثبات کیا ہے یا ان تمام صفات کی نفی کر کے اللہ رب العالمین کے منکر بن جائیں لیکن آپ کا بعض صفات کا اثبات کرنا اور بعض صفات کی نفی کرنا تو محض تناقض ہے اس لئے آپ ان صفات میں جن کا آپ اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جن کی آپ نفی کرتے ہیں، فرق ثابت کریں اور اس تفریق پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کہیں کہ جن صفات کا میں نے اثبات کیا ہے ان سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو صفات الٰہی کا اثبات کرنے والے اہل سنت آپ سے یہ کہتے ہیں کہ جن صفات کی آپ نے نفی کی ہے ان سے بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے۔ تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نے نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہ ہی نظر آتی ہے۔ پس جو جواب آپ نفی کرنے والوں کو دیں گے وہی جواب اہل سنت آپ کو ان صفات کی بابت دیں گے جن کی آپ نفی کرتے ہیں۔ حاصل بحث یہ ہے کہ جو کوئی کسی ایسے امر کی نفی کرتا ہے جس کے اثبات پر قرآن اور سنت دلالت کرتے ہیں، تو وہ تناقض کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی شرعی دلیل ہے نہ عقلی، بلکہ وہ معقول اور منقول دونوں کی مخالفت کا مرتکب ہے۔