وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا
اور اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کی خبر (١٣) کردی تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور یہ کہ قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس وقت لوگ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑنے لگے، کچھ لوگوں نے کہا کہ تم لوگ ان کے اوپر ایک مکان بنا دو، ان کا رب ان کے حال سے زیادہ واقف ہے، جو لوگ ان کے معاملے میں (دوسروں پر) غالب آگئے، انہوں نے کہا کہ ان کے اوپر ایک مسجد بنائیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے لوگوں کو اصحاب کہف کے احوال سے مطلع کیا اور یہ اطلاع یوں ہوئی (واللہ اعلم) کہ اصحاب کہف جب اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ خود اپنے آپ کو اور ان کے معاملے کو چھپائے رکھے۔ مگر اللہ تعالیٰ ایک ایسا معاملہ چاہتا تھا جس میں لوگوں کی بھلائی اور ان کے لیے زیادہ اجر تھا۔ انہوں نے اصحاب کہف میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے اس بات کی نشانی کا عینی مشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کا قیامت کا وعدہ سچا ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور اس کا آنا بعید نہیں۔ اس سے پہلے وہ اس امر میں اختلاف کیا کرتے تھے۔ بعض لوگ قیامت اور جزائے اعمال کو مانتے تھے اور بعض اس کا انکار کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ کو اہل ایمان کے لیے ان کے یقین و بصیرت میں اضافے اور منکرین کے خلاف حجت و برہان کا باعث بنایا اور اس تمام قضیے کا اجر اصحاب کہف کو حاصل ہوا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ کو تشہیر بخشی، ان کی قدرو منزلت بلند کی یہاں تک کہ ان لوگوں کی بھی عظمت بیان کی جو ان کے احوال پر مطلع ہوئے۔ ﴿ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ﴾ ” پس نہوں نے کہا، بناؤ ان پر ایک عمارت۔“ اللہ تعالیٰ ان کے حال و مآل کے بارے میں زیادہ جانتا ہے۔ وہ لوگ جو ان کے معاملے میں اختیار رکھتے تھے، یعنی اصحاب اقتدار وہ کہنے لگے : ﴿ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ﴾ ” ہم بنائیں گے ان کی جگہ پر ایک مسجد“، یعنی ہم اس مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور اس مسجد کی وجہ سے ان کے حالات و واقعات کو یاد رکھیں گے۔ مگر یہ حالت ممنوع اور حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے۔ [صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب ما يكره من اتخاذ المساجد علي القبور، حديث: 1230] یہاں اس کا ذکر کرنا اس کے مذموم نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ آیات کا سیاق اصحاب کہف کی شان اور ان کی مدح و ثنا کے بارے میں ہے، یعنی اصحاب کہف کے بارے میں اطلاع پاکر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ یہاں تک کہنے لگے کہ ان پر ایک مسجدتعمیر کر دو۔ کہاں تو اصحاب کہف کو اپنی قوم سے شدید خوف اور اپنے بارے میں اطلاع ہونے کا ڈر تھا اور کہاں یہ حالت تھی جو آپ کے سامنے ہے۔ ﴿1﴾ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے فرار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ﴿2﴾ جو کوئی عافیت کی خواہش رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عافیت عطا کرتا ہے۔ ﴿3﴾ جو اللہ تعالیٰ کے پاس پناہ لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پناہ دیتا ہے اور اسے دوسروں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا دیتا ہے۔ ﴿4﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کی رضا کی خاطر ذلت اٹھاتا ہے انجام کار اسے بہت زیادہ عزت نصیب ہوتی ہے اور اسے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ ﴿ وَمَا عِندَ اللّٰـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ ﴾ (آل عمران :3؍198)” جو اللہ کے پاس ہے وہ نیکو کار لوگوں کے لیے بہت بہتر ہے۔“