وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
اور ہم نے اسی طرح انہیں (ایک بار) اٹھایا (١٢) تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں ان میں سے ایک نے پوچھا کہ تم سب (اس حال میں) کتنے دن رہے ہو؟ دوسروں نے جواب دیا کہ ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے ہیں، پھر کہا کہ تمہارا رب زیادہ جانتا ہے کہ تم کتنے دن رہے، تم اپنا ایک آدمی چانید کے اس سکہ کے ساتھ شہر بھیجو، پس وہ دیکھے کہ وہاں سب سے پاکیزہ کھانا کون سا ہے، تو اس میں سے تمہارے لیے کچھ کھانا (خرید کر) لے آئے، اور خاموشی کے ساتھ کام کرلے، اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔
﴿ وَكَذٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ﴾ یعنی اسی طرح ہم نے ان کو ان کی طویل نیند سے بیدار کیا ﴿لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ﴾ ” تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔“ یعنی سونے کی مدت کے بارے میں حقیقت معلوم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے پوچھیں۔ ﴿ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ﴾ ” ان میں سے ایک نے کہا، تم کتنی مدت ٹھہرے ؟ انہوں نے کہا، ہم ٹھہرے ایک دن یا ایک دن سے کم۔“ یہ قائل کے ظن پر مبنی ہے گویا ان کو اپنی مدت کی طوالت کے بارے میں اشتباہ واقع ہوگیا تھا، اس لیے ﴿قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ﴾ ” انہوں نے کہا تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے جتنی مدت تم ٹھہرے“ پس انہوں نے اپنے علم کو اس ہستی کی طرف لوٹا دیا جس کا علم اجمالا اور تفصیلا ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے سوئے رہنے کی مدت سے ان کو مطلع کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیدار کردیا تھا تاکہ وہ اس مدت کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور اپنے اپنے مبلغ علم کے مطابق انہوں نے کلام کیا اور ان کی آپس میں بحث کا نتیجہ یہ رہا کہ ان کے سونے کی مدت کا معاملہ مشتبہ ہی رہا۔ یہ لازمی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یقینی طور پر آگاہ کیا ہوگا اور ہمیں یہ بات ان کے بیدار کیے جانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے معلوم ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل عبث نہیں ہوتا اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو کوئی ان معاملات میں حقیقت کا طلب گار ہوتا ہے جن کا جاننا مطلوب ہے اور اس کے لیے امکان بھر کوشش بھی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان معاملات کو اس پر واضح کردیتا ہے اور بعد میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ ﴿وَكَذٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا﴾ (الکھف:18؍21)” اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور بے شک قیامت کی گھڑی ضرور آئے گی۔“ اگر ان کے حال کے بارے میں آگاہی نہ ہوئی ہوتی تو ان کے لیے مذکورہ واقعہ میں کوئی دلیل نہ ہوتی۔ پھر جب انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور ان کے درمیان وہ سوال جواب ہوا جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے تو انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو کچھ سکے، یعنی درہم دے کر، جو ان کے پاس تھے، کھانا خرید کر لانے کے لیے اس شہر میں بھیجا جہاں سے وہ نکل کر آئے تھے اور اس سے کہا کہ وہ اچھا اور لذیذ ترین کھانا منتخب کر کے لائے، نیز اس کے شہر جانے، کھانا خرید نے اور واپس لوٹنے میں ایسا نرم رویہ اختیار کرے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ اپنے آپ کو بھی چھپائے اور اپنے بھائیوں کے حال کو بھی مخفی رکھے اور کسی کو اس کے بارے میں کوئی علم نہ ہو۔ ان کے سامنے یہ اندیشہ تھا کہ لوگوں کو اگر ان کی اطلاع ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوگا وہ ان دو امور میں سے ایک ہوگا۔ یا تو وہ ان کو سنگسار کر کے نہایت برے طریقے سے ان کو قتل کردیں گے کیونکہ انہیں ان پر اور ان کے دین پر سخت غصہ ہے۔ یا انہیں تعذیب اور آزمائش میں مبتلا کر کے ان کو اپنے دین میں واپس لانے کی کوشش کریں گے اور اس حال میں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے بلکہ وہ اپنے دین، دنیا اور آخرت کے بارے میں سخت خسارے میں رہیں گے۔ یہ دو آیات کریمہ متعدد فوائد پر دلالت کرتی ہیں : (1)حصول علم اور علمی مباحثہ پر ترغیب، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی خاطر اصحاب کہف کو دوبارہ زندہ کیا۔ (2) جب بندے پر علم مشتبہ ہوجائے تو اس کا ادب یہ ہے کہ وہ اس علم کو اس شخص کی طرف لوٹا دے جو اس کا عالم ہے اور خود اپنی حد پر ٹھہر جائے۔ (3) خرید و فروخت میں وکالت اور اس میں شراکت صحیح ہے۔ (4) اچھی چیزیں اور لذیذ کھانے کھانا جائز ہے جبکہ ان میں اسراف نہ ہو جو ممنوع ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ ﴾ ” پس وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں سے ملتا ہے پس وہ تمہارے لیے وہیں سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آئے۔“ خاص طور پر جبکہ انسان کو اس کے سوا کوئی اور کھانا موافق نہ آتا ہو۔ شاید یہی آیت کریمہ ان مفسرین کے قول کی بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اصحاب کہف بادشاہوں کی اولاد تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے کھانا لانے والے کو اچھا اور لذیذ کھانا لانے کا حکم دیا تھا کیونکہ خوشحال اور بڑے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ اچھا کھانا تناول کرتے ہیں۔ (5) جب دین میں ابتلا اور فتنہ کا موقع ہو تو اس سے بچنے چھپنے اور فتنوں کی جگہوں سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے دینی بھائیوں کو چھپائے۔ (6) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو دین میں شدید رغبت تھی وہ اپنے دین کے بارے میں ہر قسم کے فتنہ سے دور بھاگتے تھے اور انہوں نے دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑ دیا تھا۔