سورة الكهف - آیت 17

وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ دیکھتے کہ جب آفتاب (١٠) طلوع ہوتا تھا تو ان کے غار سے دائیں طرف جھک جاتا تھا، اور جب غروب ہوتا تھا تو ان سے بچ کر بائیں طرف ہوجاتا تھا اور وہ نوجوان گار کے ایک کشادہ حصے میں تھے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پاتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کردے اس کا آپ کوئی راہ دکھانے والا دوست نہ پائیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج کی تمازت سے ان کی حفاظت کی۔ انہیں ایک ایسا غار مہیا کیا کہ جب سورج طلوع ہوتا تو اس کے دائیں طرف سے گزر جاتا اور جب غروب ہوتا تو اس کی بائیں طرف سے گزر جاتا اس طرح سورج کی تمازت ان تک نہ پہنچ پاتی، جو ان کے ابدان کو خراب کرتی۔ ﴿وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ﴾ ” اور وہ اس کے میدان میں تھے۔“ یعنی وہ غار کے اندر ایک کھلی جگہ میں لیٹے ہوئے تھے تاکہ وہاں تازہ ہوا کا گزر ہو اور یوں وہ گھٹن اور بدن کے خراب ہونے سے بچیں رہیں خاص طور پر جبکہ انہوں نے طویل عرصہ تک پڑے رہنا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے جو اس کی قدرت اور رحمت پر دلالت کرتی ہے نیز ان کی دعا کے قبول ہونے اور ان کے ہدایت یافتہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿  مَن يَهْدِ اللّٰـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ﴾ ” جس کو ہدایت دے اللہ، پس وہی ہدایت پر ہے“ یعنی اللہ کے سوا ہدایت کے حصول کا کوئی راستہ نہیں، دین و دنیا کے مصالح کے لیے اللہ تعالیٰ ہی ہادی اور راہنما ہے۔ ﴿وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا﴾ ” اور جس کو وہ گمراہ کر دے، پس آپ اس کے لیے ہرگز ررہنمائی کرنے والا رفیق نہیں پائیں گے۔“ یعنی آپ کوئی ایسی ہستی نہیں پائیں گے جو اس کی سر پرستی کرے اور اس کے معاملے کی اس طرح تدبیر کرے جو اس کے لیے درست ہے اور نہ کوئی ایسی ہستی پائیں گے جو نیکی اور فلاح کی طرف اس کی راہ نمائی کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی گمراہی کا فیصلہ کردیا ہے اور اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا۔