نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى
ہم آپ کو ان کا صحیح واقعہ (٦) سناتے ہیں، بیشک وہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے انہیں راہ راست کی طرف زیادہ ہدایت دی تھی۔
یہاں سے اصحاب کہف کے واقعہ کی تفصیل شروع ہوتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس قصے کو حق اور صداقت کے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیان کرتا ہے جس میں کسی لحاظ سے کوئی شک و شبہ نہیں۔ ﴿ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ ﴾ ” وہ چند نوجوان تھے جو اپنے rب پر ایمان لائے“ )فِتْيَةٌ( جمع قلت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ نوجوان تعداد میں دس سے کم تھے۔ وہ اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لائے مگر ان کی قوم ایمان نہ لائی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی قدر کی اور ان کی ہدایت میں اضافہ کیا، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے راہ ایمان پر گامزن ہونے کے سبب سے ان کی ہدایت کو اور زیادہ کردیا۔ ہدایت سے مراد علم نافع اور عمل صالح ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيَزِيدُ اللّٰـهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى﴾ )مریم:19؍76) ” جو لوگ راہ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی راست روی اور زیادہ بڑھاتا ہے۔“