سورة الكهف - آیت 9

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غار (٤) اور رقیم بستی کے رہنے والے ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ استفہام، نفی اور نہی کے معنیٰ میں ہے۔ یعنی اصحاب کہف کے قصہ اور ان کے واقعات کو اللہ تعالیٰ کی آیات کے سامنے انہونی بات، اس کی حکمت میں انوکھا واقعہ نہ سمجھو اور نہ یہ سمجھو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں اور اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار تعجب خیز معجزات ہیں جو اصحاب کہف کے معجزے کی جنس میں سے ہیں یا اس سے بھی بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کو آفاق اور ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھاتا رہا ہے جن سے حق و باطل اور ہدایت و ضلالت واضح ہوتے ہیں۔ نفی سے مراد یہ نہیں کہ اصحاب کہف کا قصہ عجائبات میں سے نہیں بلکہ یہ قصہ تو اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ہے اور اس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس جنس کے اور بہت سے معجزات ہیں، اس لیے صرف اس ایک معجزے پر تعجب کے ساتھ ٹھہر جانا علم و عقل میں نقص ہے۔ بندہ مومن کا وظیفہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات میں غور و فکر کرے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو غورو فکر کی دعوت دی ہے کیونکہ غورو فکر ایمان کی کلید اور علم و ایقان کا راستہ ہے۔ اصحاب کہف کو (الکھف) اور ( الرقیم)کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ کہف سے مراد پہاڑ کے اندر ایک غار ہے اور رقیم سے مراد کتبہ ہے جس پر اصحاب کہف کے نام اور ان کا واقعہ درج تھا کہ وہ طویل زمانے تک اس غار میں پڑے رہے ہیں۔