سورة الإسراء - آیت 83

وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ہم انسان کو نعمت (٥٢) دیتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور بندگی سے دور ہوجاتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ناامید ہوجاتا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

انسان جہاں بھی ہے یہ اس کی فطرت ہے، سوائے اس کے جس کی اللہ راہنمائی فرمائے، کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں عطا ہوتی ہیں تو وہ ان نعمتوں پر بہت خوش ہوتا ہے، ان پر اتراتا ہے، حق سے روگردانی کرتا ہے، اینٹھتا ہے اور اپنے رب سے منہ موڑ لیتا ہے، وہ اس کا شکر ادا کرتا ہے نہ اس کو یاد کرتا ہے۔ ﴿وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ﴾ ” اور جب اس کو برائی پہنچتی ہے“ مثلا بیماری وغیرہ ﴿كَانَ يَئُوسًا ﴾ ’’ وہ مایوس ہوجاتا ہے۔“ یعنی بھلائی سے بالکل مایوس ہوجاتا ہے، رب سے اپنی امید منقطع کرلیتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جس حالت میں ہے ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ اور وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ ہدایت سے نواز دیتا ہے وہ نعمتیں میسر ہونے پر اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جاتا ہے اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرتا ہے اور جب وہ سختی اور مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو اللہ کے سامنے گڑگڑاتا ہے اللہ تعالیٰ سے عافیت اور اس مصیبت کے دور ہونے کی امید رکھتا ہے اور اس سے اس کی مصیبت ہلکی ہوجاتی ہے۔