وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
اور آپ کہہ دیجیے کہ حق آگیا (٥٠) اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے کی چیز ہوتی ہی ہے۔
﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ ” اور کہہ دیجیے ! حق آگیا اور بال نکل بھاگا۔“ حق وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ناز ل فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ وہ اپنے قول سے اس کا اعلان کردیں کہ حق آگیا ہے اس کے مقابلے میں کوئی چیز کھڑی نہیں رہ سکتی اور باطل چلا گیا، یعنی مضمحل ہو کر معدوم ہوگیا۔ ﴿إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ ” بے شک باطل ہے نکل بھاگنے والا‘‘ یعنی یہ باطل کا وصف ہے مگر کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر باطل کے مقابلے میں حق موجود نہ ہو تو باطل عروج پاکر مروج ہوجاتا ہے تاہم جب حق آجاتا ہے تو باطل مضمحل ہوجاتا ہے اور اس میں کوئی حرکت باقی نہیں رہتی، اسی لیے باطل صرف انہیں زمانوں اور انہیں علاقوں میں رواج پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی بینات کے علم سے خالی ہوتے ہیں۔