أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا
آپ زوال آفتاب کے وقت سے رات کی تاریکی تک نماز قائم (٤٧) کیجیے، اور فجر کی نماز میں قرآن پڑھیئے، بیشک فجر میں قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کی حاضری کا وقت ہوتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ نماز کو ظاہری اور باطنی طور پر اس کے اوقات میں مکمل طور پر قائم کریں ﴿لِدُلُوكِ الشَّمْسِ﴾ ” سورج ڈھلنے سے“ یعنی زوال کے بعد سورج کے مغربی افق کی طرف مائل ہوجانے سے لے کر، اس میں ظہر اور عصر کی نمازیں داخل ہیں ﴿إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ﴾ ” رات کے اندھیرے تک“ یعنی رات کی تاریکی میں اور اس میں مغرب اور عشاء کی نمازیں داخل ہیں۔ ﴿وَقُرْآنَ الْفَجْرِ﴾ ” اور فجر کا قرآن پڑھنا“ یعنی فجر کی نماز، اور اسے ” قرآن“ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس میں قراءت قرآن کی طوالت مشروع ہے۔ یہ قراءت سے زیادہ لمبی ہوتی ہے نیز فجر کی نماز میں قراءت کی فضیلت ہے کیونکہ اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں فرض نمازوں کے اوقات پنجگانہ کا ذکر ہے ان اوقات میں پڑھی جانے والی نمازیں فرض ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ وقت، صحت نماز کے لیے شرط ہے اور دخول وقت، نماز کے واجب ہونے کا سبب ہے کیونکہ اس نے ان اوقات میں نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے، نیز آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کو کسی عذر کی بناء پر جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر دو نمازوں کے اوقات کو اکٹھا بیان کیا ہے۔ اس سے نماز فجر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نماز فجر میں لمبی قراءت کی فضیلت ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ قراءت نماز کا رکن ہے کیونکہ جب عبادت کے کسی جز کو اس عبادت کے نام سے موسوم کردیا جائے تو وہ اس جز کی فرضیت پر دلالت کرتا ہے۔