وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ
اور کوئی آدمی (294) ایسا ہوتا ہے جس کی بات دنیاوی زندگی میں آپ کو پسند آئے گی، اور وہ اللہ کو اپنے دل کی صداقت پر گواہ بناتا ہے، حالانکہ وہ بدترین جھگڑالو ہوتا ہے
جب اللہ تعالیٰ نے کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا، خاص طور پر فضیلت والے اوقات میں، وہ ذکر الٰہی جو سب سے بڑی بھلائی اور نیکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے حال کے بارے میں خبر دی جو اپنی زبان سے جو بات کرتا ہے اس کا فعل اس کی مخالفت کرتا ہے۔ پس کلام ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بلند مراتب پر فائز کرتی ہے یا اس کو پستی میں گرا دیتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا﴾ ” بعض لوگ وہ ہیں جن کی بات تجھ کو اچھی لگتی ہے دنیا کی زندگی میں“ یعنی جب وہ بات کرتا ہے تو اس کی باتیں سننے والے کو بہت اچھی لگتی ہیں۔ جب وہ بات کرتا ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہی فائدہ مند بات کر رہا ہے۔ اور بات کو مزید موکد بناتا ہے۔ ﴿ وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ ۙ﴾۔ اور جو اس کے دل میں ہے، اس پر وہ اللہ کو گواہ بناتا ہے“ یعنی وہ خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے آگاہ ہے کہ اس کے دل میں وہی کچھ ہے جس کا اظہار وہ زبان سے کر رہا ہے، درآنحالیکہ وہ اس بارے میں جھوٹا ہے، کیونکہ اس کا فعل اس کے قول کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر وہ سچا ہوتا تو اس کا فعل اس کے قول کی موافقت کرتا جیسا کہ سچے مومن کا حال ہوتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿َھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ﴾” اور وہ سخت جھگڑالو ہے“ یعنی جب کبھی آپ اس سے بحث کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں سخت جھگڑالو پن، سرکشی اور تعصب جیسی مذموم صفات موجود ہیں اور ان کے نتیجے میں، اس کے اندر وہ اوصاف پائے جاتے ہیں جو قبیح ترین اوصاف ہیں۔ یہ اوصاف اہل ایمان کے اوصاف کی مانند نہیں ہیں۔ وہ اہل ایمان جنہوں نے سہولت کو اپنی سواری، اطاعت حق کو اپنا وظیفہ اور عفو و درگزر کو اپنی طبیعت بنا لیا۔