سورة الإسراء - آیت 73

وَإِن كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَّاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

قر قریب تھا کہ کفار مکہ آپ کو اس دعوت توحید سے بہکا دیتے (٤٤) جس کا ہم نے آپ کو بذریعہ وحی حکم دیا ہے، تاکہ اس کے بجائے آپ ہماری طرف کوئی جھوٹ منسوب کردیں، پھر تو وہ آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے احسان و نوازش اور آپ کے دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا ذکر کرتا ہے جو ہر طریقے سے آپ کو آزمائش میں مبتلا کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِن كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ﴾ ” یقیناً قریب تھا کہ وہ آپ کو بہکا دیتے اس وحی سے جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی تاکہ آپ جھوٹ بنا لائیں ہم پر وحی کے سوا“ یعنی وہ آپ کے خلاف ایک معاملے میں سازش کرچکے ہیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے انہوں نے آپ کے خلاف چال چلی تھی کہ آپ اس قرآن کے علاوہ، اللہ تعالیٰ پر کوئی اور بہتان گھڑیں جو ان کی خواہشات نفس کے موافق ہو اور آپ اس چیز کو چھوڑ دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی ہے۔ ﴿ وَإِذًا﴾ ” اور تب“ یعنی اگر آپ وہ کچھ کرتے جو وہ چاہتے ہیں تو ﴿ لَّاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا﴾ ” وہ بنا لیتے آپ کو دوست“ یعنی خاص دوست، جو ان کو ان کے دوستوں سے زیادہ عزیز ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکارم اخلاق اور محاسن آداب سے نوازا ہے جو قریب اور بعید، دوست اور دشمن سب کو پسند ہیں۔ مگر آپ کو علم ہونا چاہیے کہ وہ آپ کے ساتھ صرف اس حق کی وجہ سے عداوت رکھتے ہیں جسے آپ لے کر مبعوث ہوئے ہیں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ کوئی عداوت نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ  فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّٰـهِ يَجْحَدُونَ﴾ (الانعام : 6؍33)” ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ یہ باتیں بناتے ہیں ان سے آپ کو دکھ ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں۔ “