سورة الإسراء - آیت 67

وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب تمہیں سمندر میں تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کے سوا وہ تمام معبود جنہیں تم پکارتے رہے تھے گم ہوجاتے ہیں پھر جب وہ تمہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو اس سے روگردانی کرلیتے ہو (حقیقت یہ ہے کہ) انسان بڑا ہی ناشکر گزار ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس جب اللہ تعالیٰ ان کی مصیبت دور کردیتا ہے اور انہیں صحیح سلامت کنارے پر لگا کر سمندر کی ہلاکت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں جو انہوں نے اللہ کو پکارا تھا۔ پھر وہ ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتے ہیں جو کوئی نفع دے سکتی ہیں نہ نقصان، جو کسی کو عطا کرسکتی ہیں نہ کسی کو محروم کرسکتی ہیں اور اپنے رب اور مالک سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ یہ انسان کی جہالت اور نا سپاسی ہے۔ بے شک انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا سخت ناسپاس ہے، سوائے اس شخص کے جسے اللہ تعالیٰ راہ راست دکھا دے۔ پس اسے عقل سلیم سے نواز دیتا ہے اور وہ راہ راست پر گامزن ہوجاتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو مصیبتیں دور کرتا ہے، اہوال سے نجات دیتا ہے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ سختی اور نرمی میں، خوشحالی اور تنگدستی میں تمام اعمال کو صرف اسی کے لیے خالص کیا جائے۔ رہا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ اس کی کمزور عقل کے حوالے کر دے تو وہ مصیبت اور سختی کے وقت صرف موجودہ اور عارضی مصلحت کو ملحوظ اور اس حال میں اپنی نجات کو مد نظر رکھتا ہے اور جب اسے اس مصیبت سے نجات حاصل ہوتی ہے اور اس سے سختی دور ہوجاتی ہے تو وہ اپنی حالت کی وجہ سے سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو بے بس کردیا اور اس کے دل میں آخرت کا خیال تو کجا اسے اپنے دنیاوی انجام کے بارے میں بھی کبھی خیال نہیں آتا۔