وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اور گنتی کے چند دنوں (292) میں اللہ کی یاد میں مشغول رہو، پس جو کوئی دو دن میں جلدی چلا گیا (293) اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جس نے جلدی نہیں کی اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس کے لیے جو متقی ہے، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ تم لوگ اسی کے پاس جمع کیے جاؤ گے
اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ گنتی کے چند دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، ان دنوں سے مراد عید کے بعد کے ایام تشریق (کے تین دن) ہیں، کیونکہ انہیں شرف و فضیلت حاصل ہے نیز اس لئے بھی کہ بقیہ تمام مناسک حج انہی ایام میں پورے کئے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان دنوں میں لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں روزہ رکھنا حرام قرار دیا ہے۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ایک ایسی خوبی ہے جو اور دنوں میں نہیں پائی جاتی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا﴿ اَيّامُ التَّشْرِيقِ اَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَ ذِكْرِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ﴾” ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔“ اور ان ایام میں جو اللہ کا ذکر کرنے کا حکم ہے، تو اس میں رمی جمار کے وقت، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اور فرض نمازوں کے بعد مخصوص اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی آجاتا ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں اس حکم میں مطلق تکبیرات داخل ہیں۔ جیسے ذوالحج کے پہلے دس دنوں میں تکبیرات کہی جاتی ہیں اور یہ بعید بھی نہیں۔ ﴿ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۚ ﴾” پس جس نے جلدی کی دو دنوں میں، تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی جو کوئی دوسرے روز غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکل کر کوچ کرتا ہے ﴿ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۙ﴾” اور جس نے دیر کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی جو کوئی تیسری رات منیٰ میں بسر کر کے اگلی صبح کنکر مارتا ہے (تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں) دونوں امور مباح قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تخفیف عطا کی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہے کہ اگرچہ دونوں امور جائز ہیں تاہم تیسری رات کے بعد منیٰ سے کوچ کرنا افضل ہے، کیونکہ اس طرح کثرت عبادت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ آیت کریمہ میں نفی حرج کا ذکر کیا گیا ہے جس سے کبھی تو صرف اسی معاملے میں نفی حرج کا مفہوم ذہن میں آتا ہے اور کبھی اس کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی۔ جب کہ صورتحال یہ ہے کہ صرف تقدیم و تاخیر میں حرج کی نفی کی گئی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ﴿ لِمَنِ اتَّقٰی ۭ﴾کے ساتھ مقید کیا ہے، یعنی جس نے تمام معاملات میں اور حج کے احوال میں تقویٰ اختیار کیا۔ پس جس نے ہر معاملے میں تقویٰ اختیار کیا اس کے لئے ہر معاملے میں حرج کی نفی حاصل ہوگئی اور جس نے بعض معاملات میں تقویٰ اختیار کیا اور بعض معاملات میں اسے نظر انداز کردیا تو اس کو جزا بھی اس کے عمل کی جنس سے ملے گی۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ﴾” اور اللہ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ﴾” جان لو کہ تمہیں اسی (اللہ تعالیٰ) کے پاس اکٹھا کیا جائے گا“ اور وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔ پس جس کسی نے تقویٰ اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا پائے گا اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہوں سے باز نہ آیا، اللہ تعالیٰ اسے سخت سزا دے گا۔ جزا و سزا کا علم، تقویٰ کا سب سے بڑا داعیہ ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جزائے آخرت کے علم کی بڑی ترغیب دی ہے۔