سورة الإسراء - آیت 42

قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجیے کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود (٢٩) ہوتے، جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں تو وہ سب عرش والے (اللہ) تک پہنچنے کی راہ تلاش کرتے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جس موضوع پر اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ دلائل و براہین بیان کئے، وہ توحید ہے جو تمام اصولوں کی اساس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور اس کی ضد سے روکا ہے اور اس پر بہت سے عقلی اور نقلی دلائل بیان کئے ہیں جو کوئی ان میں سے کسی پر توجہ دیتا ہے تو اس کے قلب میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا۔ ان دلائل میں سے ایک عقلی دلیل یہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے یہاں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ﴿قُل﴾ یعنی ان مشرکین سے کہہ دیجئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور بھی معبود بنا لئے ہیں۔ ﴿لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ ﴾ ،، اگر اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں،، یعنی ان کے زعم اور افترا پردازی کے مطابق ﴿إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا ﴾ ،، تو نکالتے صاحب عرض کی طرف کوئی راستہ،، یعنی وہ عبادت، انابت، تقرب اور وسیلے کے ذریعے سے ضرور اللہ تعلایٰ کی طرف کوئی راستہ تلاش کرتے۔ پس وہ شخص جو اپنے آپ کو اپنے رب کی عبودیت کا نہایت شدت سے محتاج سمجھتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری ہستیوں کو معبود کیسے قرار دے سکتا ہے؟ کیا یہ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی سفاہت نہیں ہے؟ اس معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد جیسی ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ﴾ )نبی اسرائیل : 17؍57( ،، جن لوگوں کو یہ پکارٹے ہیں وہ تو خود اللہ کے ہاں تقرب کے حصول کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ کون اس کے قریب تر ہے۔،، اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ ﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَـٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ﴾ (الفرقان : 25؍17،18) ،، اور جس روز وہ ان لوگوں کو اکٹھا کرے گا اور ان کو بھی جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر پوجا کرتے ہیں، پھر ان سے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا؟ یا وہ خود گمراہ ہوگئے تھے؟ وہ جواب دیں گے تیری ذات پاک ہے ہمارے لئے یہ مناسب نہ تھا کہ ہم تجھے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا مولا بنائیں۔،، اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس آیت کے معنی یہ ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر غالب آنے کے لئے کوشش کرتے اور کوئی راستہ تلاش کرتے۔ پس یا تو وہ اس پر غالب آجاتے اور جو غالب آجاتا وہی رب اور الٰہ ہوتا لیکن جیسا کہ انہیں علم ہے اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کے خود ساختہ معبود جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، مقہور و مجبور اور مغلوب ہیں انہیں کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں، ان کا یہ حال ہوتے ہوئے پھر ان کو انہوں نے معبود کیوں بنایا ہے؟ تب اس معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مشابہ ہے۔ ﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰـهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ﴾ (المومنون : 23؍91) ،، اللہ نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوق لے کر الگ ہوجاتا پھر تمام ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتے۔۔