سورة الإسراء - آیت 23

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ کے رب نے یہ فیصلہ (١٤) کردیا ہے کہ لوگو ! تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہاری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف نہ کہو اور انہیں ڈانٹو نہیں، اور ان کے ساتھ نرمی اور ادب و احترام کے ساتھ بات کرو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک سے منع کرنے کے بعد توحید کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ ﴾ ’’آپ کے رب نے (دینی) فیصلہ کردیا، اور شرعی حکم دے دیا ہے۔ ﴿ أَلَّا تَعْبُدُوا﴾ ’’کہ تم عبادت نہ کرو۔‘‘ یعنی زمین اور آسمان کے رہنے والوں، زندوں یا مردوں میں سے کسی کی عبادت نہ کرو۔ ﴿ إِلَّا إِيَّاهُ﴾ ’’ مگر صرف اس کی‘‘ کیونکہ وہ واحد اور یکتا، فرد اور بے نیاز ہے۔ جو ہر صفت کمال کا مالک ہے۔ اس کی ہر صفت کامل ترین ہے اور مخلوق میں کوئی ہستی اس کی کسی صفت میں کسی بھی پہلو سے مشابہت نہیں کرسکتی وہ منعم ہے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے وہی نوازتا ہے وہی تمام تکالیف کو دور کرتا ہے، وہ خالق، رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ وہ ان تمام اوصاف میں منفرد اور یکتا ہے اس کے سوا کوئی دوسری ہستی اوصاف میں سے کسی چیز کی بھی مالک نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے بعد والدین کے حقوق کو قائم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ ’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ یعنی قول و فعل، ہر لحاظ سے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ کیونکہ والدین ہی بندے کے وجود میں آنے کا سبب ہیں، وہ اولاد کے لئے محبت رکھتے ہیں، اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور اولاد کو قریب رکھتے ہیں، یہ امور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے حق کی تاکید اور ان کے ساتھ بھلائی کے وجوب کا تقاضا کرتے ہیں۔ ﴿إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا﴾ ’’اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو، ان میں سے ایک یا دونوں‘‘ یعنی جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں جس میں ان کے قوی کمزور پڑجاتے ہیں اور وہ نرمی اور حسن سلوک کے معروف طریقے سے محتاج ہوتے ہیں۔ ﴿فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ﴾ ’’تو تو ان کو ہوں بھی نہ کہہ‘‘ یہ اذیت کا ادنیٰ مرتبہ ہے اس کے ذریعے سے اذیت کی دیگر انواع پر تنبیہ کی ہے۔ معنیٰ یہ ہے کہ ان کو ادنیٰ اذیت بھی نہ پہنچاؤ۔ ﴿وَلَا تَنْهَرْهُمَا ﴾ ’’اور نہ ان کو جھڑکو‘‘ اور نہ ان سے سخت کلامی کرو۔ ﴿وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴾ ،، اور کہہ ان سے بات ادب کی،، ان کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرو جن کو وہ پسند کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ نہایت ادب اور مہربانی سے پیش آؤ۔ انتہائی نرمی اور اچھے پیرائے میں بات کرو جس سے ان کے دل لذت محسوس کریں اور ان کو اطمینان حاصل ہو۔ یہ حسن سلوک احوال و عادات اور زمانے کے اختلاف کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔