مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
جو کوئی راہ راست (٨) کو اپناتا ہے تو وہ اپنے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے اور جو کوئی گم گشتہ راہ ہوجاتا ہے تو اس کا وبال اسی کے سر ہوتا ہے، کوئی شخص بھی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں ڈھوتا ہے، اور ہم جب تک اپنا رسول نہیں بھیج دیتے ہیں (کسی قوم کو) عذاب (٩) نہیں دیتے ہیں۔
یعنی ہر نفس کی ہدایت اور گمراہی خود اس کے لئے ہے کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ذرہ بھر تکلیف اس سے دور ہٹا سکے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سب سے بڑا عادل ہے وہ اس وقت تک کسی کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ اس پر رسالت کی حجت قائم نہ ہوجائے اور یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس نے اس حجت کے ساتھ عناد کا مظاہرہ کیا۔ رہا وہ شخص جس نے رسالت کی اس حجت کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، یا اس کے پاس حجت پہنچی ہی نہیں، تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو عذاب نہیں دے گا۔ اس آیت کریمہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل فترات (یعنی اس زمانے یا علاقے کے لوگ جن تک نبوت نہیں پہنچی) اور مشرکین کے بچوں کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ ان کی طرف رسول نہ بھیج لے کیونکہ وہ ظلم سے پاک اور منزہ ہے۔