عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ ۚ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا
امید ہے تمہارا رب تم پر رحم کردے، اور اگر تم پھر سرکشی کی طرف لوٹو گے تو ہم اسی کاروائی کی طرف لوٹ جائیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے قید کرنے کی جگہ بنائی ہے۔
﴿عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ﴾ ’’بعید نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے‘‘ یعنی ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ان پر فتح و نصرت عطا کرے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے انہیں دوبارہ حکومت عطا کی اور انہیں نافرمانیوں پر وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿وَإِنْ عُدتُّمْ﴾ ’’اور اگر تم پھر وہی کرو گے‘‘ یعنی اگر تم زمین میں فساد برپا کرنے کا اعادہ کرو گے ﴿عُدْنَا ۘ﴾’’ تو ہم پھر وہی کریں گے‘‘ ہم بھی تمہیں دو بارہ سزا دیں گے۔ پس انہوں نے زمین میں دوبارہ فساد برپا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلط کردیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے سے ان سے انتقام لیا۔ یہ تو ہے دنیا کی سزا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو آخرت کی سزا ہے وہ اس سے زیادہ بڑی اور رسوا کن ہے، اس نے فرمایا : ﴿وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا﴾’’ اور کیا ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ‘‘ جس میں وہ جھونکے جائیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے کبھی نہ نکلیں گے۔ ان آیات کریمہ میں اس امت کے لئے تحذیرو تخویف ہے کہ وہ معاصی سے بچیں ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی سزا دی جائے جو نبی اسرائیل کو دی گئی تھی۔ سنت الٰہی ایک ہی ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں آتا۔ جو کوئی اس بارے میں غوروفکر کرے کہ کس طرح کفار مسلمانوں پر مسلط ہوئے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب مسلمان قرآن اور سنت کو نافذ کریں گے تو وہ انہیں زمین کا اقتدار عطا کرے گا اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرے گا۔