مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
جو کوئی مرد یا عوعرت نیک کام (٦٢) کرے گا، درآنحلیکہ وہ مومن ہوگا تو اسے ہم پاکیزہ اور عمدہ زندگی عطا کریں گے، اور ان کے اعمال سے زیادہ اچھا بدلہ انہیں دیں گے۔
بنابریں اللہ تعالیٰ نے عمل کرنے والوں کے لئے دنیاوی اور اخروی ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ﴾ ” جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت وہ مومن ہو“ اس لئے کہ ایمان، اعمال صالح کی صحت اور ان کی قبولیت کے لئے شرط ہے بلکہ اعمال صالحہ کو ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کہا ہی نہیں جاسکتا۔ ایمان، ایمان صالحہ کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ایمان تصدیق جازم کا نام ہے۔ واجبات و مستحبات پر مشتمل اعمال جو ارح ایمان کا ثمرہ ہیں۔ پس جو کوئی ایمان اور عمل صالح کو جمع کرلیتا ہے ﴿فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ﴾ ” تو ہم اس کو زندگی دیں گے اچھی زندگی“ یہ زندگی اطمینان قلب، سکون نفس اور ان امور کی طرف عدم التفات پر مشتمل ہے جو قلب کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح رزق حلال سے نوازتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ﴿وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ ﴾ ” اور ہم بدلے میں دیں گے ان کو“ یعنی آخرت میں ﴿أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں مختلف قسم کی لذات سے نوازے گا جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال گزرا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی بھلائی سے نوازے گا اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرے گا۔