وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ
اور ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ کا خاتمہ ہوجائے اور حاکمیت صرف اللہ کی رہ جائے، اگر وہ باز آجائیں (تو تم بھی رک جاؤ) اس لیے کہ زیادتی تو صرف ظالموں پر ہے
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے راستے میں اس قتال اور جہاد کا مقصد بیان فرمایا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ کا مقصد یہ نہیں کہ کفار کا خون بہایا جائے اور انکے اموال لوٹ لیے جائیں، بلکہ جہاد کا مقصد صرف یہ ہے ﴿ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ۭ ﴾” کہ دین اللہ کا ہوجائے“ یعنی اللہ تعالیٰ کا دین تمام ادیان پر غالب آجائے اور شرک وغیرہ اور ان تمام نظریات کا قلع قمع کردیا جائے جو اللہ کے دین کے منافی ہیں اور فتنہ سے بھی یہی مراد ہے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوجائے تو قتل کرنا اور لڑائی کرنا جائز نہیں۔ ﴿فَاِنِ انْتَہَوْا ﴾” پس اگر وہ باز آجائیں۔“ یعنی اگر وہ مسجد حرام کے قریب تمہارے ساتھ لڑائی کرنے سے باز آجائیں۔ ﴿ فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں۔“ یعنی تمہاری طرف سے ان پر کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہونی چاہئے، سوائے اس کے جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو تو ایسا شخص اپنے ظلم کے برابر سزا کا مستحق ہے۔