الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہاں کا پالنے والا ہے
﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کے ان افعال کی ثنا ہے جو فضل و عدل کے درمیان دائر ہیں۔ پس ہر پہلو سے کامل حمد کا مالک وہی ہے۔ ﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” جہانوں کا پروردگار ہے۔“ (رَبِّ) وہ ہستی ہے جو تمام جہانوں کی مربی ہے۔ (اَلْعَالَمِينَ) سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق ہے۔ اس نے ان کو پیدا کیا، ان کے لئے ان کی زندگی کا سروسامان مہیا کیا اور پھر انہیں اپنی ان عظیم نعمتوں سے نوازا کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو ان کے لئے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔ پس مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ کی تربیت (پرورش کرنے) کی دو قسمیں ہیں۔ (١) تربیت عامہ (2) تربیت خاصہ۔ تربیت عامہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، ان کو رزق بہم پہنچایا اور ان مفادات و مصالح کی طرف ان کی راہ نمائی کی جن میں ان کی دنیاوی زندگی کی بقا ہے۔ تربیت خاصہ وہ تربیت ہے جو اس کے اولیا کے لئے مخصوص ہے پس وہ ایمان کے ذریعے سے ان کی تربیت کرتا ہے، انہیں ایمان کی توفیق سے نوازتا اور ان کی تکمیل کرتا ہے وہ ان سے ان تمام امور کو دور کرتا ہے جو راہ حق پر چلنے سے انہیں باز رکھتے ہیں اور ان تمام رکاوٹوں کو ہٹاتا ہے جو ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل ہوتی ہیں۔ تربیت خاصہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہر بھلائی کی توفیق ملتی اور ہر برائی سے حفاظت نصیب ہوتی ہے۔ شاید یہی معنی انبیائے کرام علیہ السلام کی دعاؤں کا سرنہاں ہے کہ ان میں اکثر ” رب“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی فریادیں تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کی ربوبیت خاصہ کے تحت آتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿رَبُّ العٰلَمِیْنَ﴾ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا ہے۔ وہ اکیلا ہی ان کی تدبیر کرتا ہے اور اسے کمال بے نیازی حاصل ہے اور تمام عالم ہر پہلو اور ہر اعتبار سے اس کا محتاج ہے۔