يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
جو بری خبر اسے دی گئی ہے اس کی وجہ سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے (سوچتا ہے) کیا ذلت و رسوائی کے باوجود اسے اپنے پاس رکھے، یا مٹی میں ٹھونس دے، آگاہ رہو کہ ان کا فیصلہ بڑا برا ہے۔
﴿أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ ﴾ ” کیا اسے رہنے دے، ذلت قبول کر کے“ یعنی آیا اہانت اور ذلت برداشت کر کے اسے قتل نہ کرے اور زندہ چھوڑ دے۔ ﴿أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ﴾ ” یا اس کو داب دے مٹی میں“ یعنی اسے زندہ دفن کر دے۔ یہی وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو سخت مذمت کی ہے۔ ﴿أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴾ ” خبردار، برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں“ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اوصاف سے متصف کیا جو اس کے جلال کے لائق نہ تھیں، یعنی اس کی طرف اولاد کو منسوب کرنا، پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دونوں قسموں میں سے اس بد تر قسم کو اللہ کی طرف منسوب کیا جس کو خود اپنی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے اسے منسوب کردیتے تھے؟ پس بہت ہی برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے۔ چونکہ یہ بری مثال تھی جس کو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں، مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :